گزر جاتا ہے یوں دور شباب آہستہ آہستہ
گزر جاتا ہے یوں دور شباب آہستہ آہستہ
کہ اترے جس طرح کیف شراب آہستہ آہستہ
شفق ہوتی ہے جیسے منتقل شب کے اندھیروں میں
بدلتی جاتی ہے تعبیر خواب آہستہ آہستہ
چلے گا سلسلہ کچھ اور ابھی خانہ خرابی کا
کہ بستے ہیں تباہ انقلاب آہستہ آہستہ
جرائم کے بگولے رفتہ رفتہ بن گئے طوفاں
فصیل شہر پر ٹوٹا عذاب آہستہ آہستہ
روش یک لخت بدلے یوں کبھی ہوتے نہیں دیکھا
ہمارا طور بدلے گا جناب آہستہ آہستہ
تساہل ہم نے برتا یا تغافل آپ کی خو ہے
ملے گا ان سوالوں کا جواب آہستہ آہستہ
اچانک رونمائی سے نظر خیرہ نہ ہو جائے
ذرا سرکائیے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ
پڑھیں لوگوں نے جس پر تلخیاں عمر گزشتہ کی
مرا چہرہ بنا ایسی کتاب آہستہ آہستہ
غم دوراں کی روز افزوں ستم گاری نے اے محسنؔ
ہماری زیست کر ڈالی عذاب آہستہ آہستہ آہستہ