خوش کن نظر فریب سا منظر بھی آئے گا

خوش کن نظر فریب سا منظر بھی آئے گا
چل اور تھوڑی دور ترا گھر بھی آئے گا


ہوگا یہ حادثہ بھی کبھی میرے شہر میں
آئینہ گر کے ہاتھ میں پتھر بھی آئے گا


کیوں اشتعال رکھتا ہے لمحوں کی کوکھ میں
پتھر کے پھر جواب میں خنجر بھی آئے گا


پانی میں کون کتنے ہے سب کی مجھے خبر
مجبور گر کرو گے تو لب پر بھی آئے گا


بویا ہے نور میں نے اندھیروں میں رات کے
نکلا وہ چاند بن کے مرے گھر بھی آئے گا


تاروں نے بار بار مجھے دیں تسلیاں
وہ چاند ہے تو رات کو چھت پر بھی آئے گا


وہ آرزو وہ شوق وہ چاہت نہیں رہی
الزام ایک دن یہ مرے سر بھی آئے گا


جا تو رہا ہے ریت میں کشتی کو چھوڑ کے
صحرا کو پار کرکے سمندر بھی آئے گا


یاد خزاں میں ذکر کیے جا بہار کا
لطف بہار کچھ مجھے سن کر بھی آئے گا


محسنؔ میں تیرگی میں اسے کیوں پکارتا
سورج ہے وہ تو روشنی لے کر بھی آئے گا