مکیں ہوں اور حدود مکاں نہیں معلوم
مکیں ہوں اور حدود مکاں نہیں معلوم
سنانے بیٹھ گیا داستاں نہیں معلوم
دل حزیں کو کرم کی امید کرنے دے
ابھی اسے تری مجبوریاں نہیں معلوم
گزر رہی ہے بس اک سوز و کرب پیہم میں
کہاں جلا تھا مرا آشیاں نہیں معلوم
سکوں سے منتظر امتیاز ہے اب تک
مری جبیں کو ترا آستاں نہیں معلوم
کسی کو ان کا پتہ کیا بتائیں اے عالیؔ
ہمیں تو آپ ہی اپنا نشاں نہیں معلوم