میں نے یوں ان سرد لبوں کو رکھا ان رخساروں پر

میں نے یوں ان سرد لبوں کو رکھا ان رخساروں پر
جیسے کوئی بھول سے رکھ دے پھولوں کو انگاروں پر


چھپ گیا عید کا چاند نکل کر دیر ہوئی پر جانے کیوں
نظریں اب تک ٹکی ہوئی ہیں مسجد کے میناروں پر


آتی جاتی سانسوں پر وہ دل کے تڑپنے کا عالم
جیسے کوئی ناچ رہا ہو دو دھاری تلواروں پر


برسوں بعد جو گھر میں لوٹا دیکھ کے آنکھیں بھر آئیں
اب تک ان کا نام لکھا تھا گھر کی سب دیواروں پر


موسم گل پھر آیا شاید پھر اک وحشت جاگ اٹھی
وہ دیکھو سبزہ اگ آیا زنداں کی دیواروں پر


پیروں میں باندھے بیٹھے ہیں ہم خود ہی زنجیر معاش
اور یاروں نے جست لگا دی دیکھو چاند ستاروں پر