میں خود ہی خواب عشق کی تعبیر ہو گیا
میں خود ہی خواب عشق کی تعبیر ہو گیا
گویا ہر اک بشر تری تصویر ہو گیا
اپنے کئے کو آ کے ذرا دیکھ تیر گر
تر خون دل سے دامن نخچیر ہو گیا
پھر پیش آ گیا وہی دلچسپ حادثہ
دل پھر کسی کے دام میں تسخیر ہو گیا
یہ وضع عاشقان یہ انداز احترام
آخر مرا خیال اسے دلگیر ہو گیا
آسودگی نصیب سلیم الطبع ہوں میں
مجھ کو غریب خانہ ہی کشمیر ہو گیا
وابستہ مجھ سے ہونا ہے خود وجہ عافیت
دیوانہ تیرا والیٔ تقدیر ہو گیا
تفرید خود ذریعۂ جاہ و جلال ہے
میں تیرا ہو کے صاحب توقیر ہو گیا
تو خوب جانتا ہے کہ میں کون تھا کبھی
اور دیکھ اب کہ کیا فلک پیر ہو گیا
ہونا تھا حشر حسرت و حرماں اگر یہی
رہبرؔ زہ نصیب کہ تو پیر ہو گیا