میں جی رہا ہوں تیرا سہارا لیے بغیر
میں جی رہا ہوں تیرا سہارا لیے بغیر
یہ زہر پی رہا ہوں گوارا کئے بغیر
بکتا نہ کاش عشق کی قیمت لیے بغیر
میں ان کا ہو گیا انہیں اپنا کئے بغیر
واقف تو ہوں وفا کے نتیجے سے ہم نشیں
بنتی نہیں ہے ان پہ بھروسا کئے بغیر
کیا زندگی ہے اہل گلستاں کی زندگی
گل ہنس رہے ہیں چاک گریباں سیے بغیر
دن رات ہم نے غم کی حفاظت تو کی مگر
دنیا نہ رہ سکی ہمیں رسوا کئے بغیر
مرنے کی آرزو مجھے مدت سے ہے مگر
لیکن یہ کام ہو نہیں سکتا جئے بغیر
ان کی نگاہ مست کے صدقے میں مدتوں
اک بے خودی کا دور رہا ہے پئے بغیر
برق چمن حدود چمن سے نکل کے دیکھ
تاریک ایک اور بھی گھر ہے دیے بغیر
اے راجؔ راس آ نہ سکی محفل حیات
ہم آ گئے تھے کس کی اجازت لئے بغیر