گردش میں ہے زمین بھی کیا آسماں کے ساتھ
گردش میں ہے زمین بھی کیا آسماں کے ساتھ
دنیا بدل گئی نگہ مہرباں کے ساتھ
دہرانا انجمن میں سمجھ سوچ کے اسے
تیری بھی داستاں ہے مری داستاں کے ساتھ
اب میں ہوں اور کنج قفس کی مصیبتیں
وہ آشیاں کی بات گئی آشیاں کے ساتھ
بیتابیوں سے ربط تھا بے چینیوں سے کام
گزرے ہیں ایسے دن بھی اس آرام جاں کے ساتھ
روز ازل وہی تو فقط مستحق نہ تھا
کچھ گردشیں ہمیں بھی ملیں آسماں کے ساتھ
غم کو ترے بھلا نہ سکا دو جہاں کا غم
تیرا بھی غم رہا ہے غم دو جہاں کے ساتھ
امید ہی نہیں تو گزر جائے گی یوں ہی
اک مہرباں کے ساتھ کہ نا مہرباں کے ساتھ
یہ سوز و ساز عشق غم جاوداں سہی
دے عمر جاوداں بھی غم جاوداں کے ساتھ
منزل کا کیا یقیں ہو بتائے کوئی مجھے
جب رہ گزار بھی ہے رواں کارواں کے ساتھ