میں اب ماضی کا ہر سپنا سہانہ بھول جاتا ہوں

میں اب ماضی کا ہر سپنا سہانہ بھول جاتا ہوں
مری جاناں ترا ملنا ملانا بھول جاتا ہوں


وہ میرا دوست تھا اب دشمن جاں بن گیا ہے جب
میں اس کو دیکھ کر اپنا نشانہ بھول جاتا ہوں


جو کل تک یار تھا میرا مگر اب غیر ہے یارو
تبھی تو اس سے اب دل کا لگانا بھول جاتا ہوں


کبھی جس نے دیا تھا درد مجھ کو راہ الفت میں
وہ درد دل مری جاناں پرانا بھول جاتا ہوں


لکھا تھا شاعر مشرق نے اپنے خون سے جس کو
عجب حالات ہیں اب وہ ترانہ بھول جاتا ہوں


دریچہ بند رہتا ہے اب اس کے گھر کا اے ساجدؔ
میں اب محبوب کے کوچے میں جانا بھول جاتا ہوں