جانے کیا کیا میں ہار بیٹھا ہوں

جانے کیا کیا میں ہار بیٹھا ہوں
کھو کے اپنا وقار بیٹھا ہوں


ملنے آئیں گے آج وہ مجھ سے
اس لیے بے قرار بیٹھا ہوں


بپھری موجیں ہیں پھر بھی میں یارو
کر کے دریا کو پار بیٹھا ہوں


نوٹ بندی نے ایسا مارا ہے
ساری دولت میں ہار بیٹھا ہوں


آج تک اچھے دن نہیں آئے
پھر بھی دل تجھ پہ وار بیٹھا ہوں


تو حسیں ہے تو کیا ہوا جاناں
میں بھی صورت نکھار بیٹھا ہوں


تجھ سے ملنے کی آرزو ہے تبھی
راہ میں میرے یار بیٹھا ہوں


تاکہ مائل ہو تو بھی میری طرف
لے کے میں دل میں پیار بیٹھا ہوں


میں بھی تیری حسیں نگاہوں کا
ہو کے ہمدم شکار بیٹھا ہوں


میں ہوں ساجدؔ سناؤ گے کیا کیا
سن کے باتیں ہزار بیٹھا ہوں