انہیں مت چھیڑئیے ان کو تو خواہش ہے سنگھاسن کی
انہیں مت چھیڑئیے ان کو تو خواہش ہے سنگھاسن کی
فقط یہ جان لیجے یہ ہے عادت ملک دشمن کی
اسے تنہائی میں جب یاد آئی اپنے ساجن کی
غموں کے سائے میں گزری تھی کل کی رات برہن کی
بتاؤں کیا تمہیں سرکش ہوا کی داستاں یاروں
کہ شاخیں سوکھتی ہی جا رہی ہے میرے گلشن کی
خدایا یہ ہماری قوم میں تفریق ہے کیسی
سبھی کو ایک کر دے یہ دعا ہے میرے تن من کی
کہ بڑھتا جا رہا ہے زعفرانی رنگ ہر شے پر
نظر آتی نہیں ہے خیر اب اپنے نشیمن کی
مجھے پھانسی پہ لٹکا دو مگر سچ بات بولوں گا
چتا ہر گام پر جلتی ہے یارو آج دلہن کی
یہ کیسا دور آیا ہے یہ کیسے لوگ ہیں ساجدؔ
مدد کوئی نہیں کرتا یہاں دل سے ابھاگن کی