مانگی مل جل کر جو رندوں نے دعا برسات کی

مانگی مل جل کر جو رندوں نے دعا برسات کی
جھوم کر آ ہی گئی کالی گھٹا برسات کی


کیوں نہ ہوں کالی گھٹائیں برق زا برسات کی
آگ پانی میں لگاتی ہے ہوا برسات کی


اپنی امیدوں کی کھیتی ہے ہوا برسات کی
سال بھر تک مانگتے ہیں ہم دعا برسات کی


روح پرور ہے بہار جاں فزا برسات کی
کتنی فرحت بخش ہے ٹھنڈی ہوا برسات کی


سبزۂ خوابیدہ جاگے جی اٹھی مردہ زمیں
کر گئی کار مسیحائی ادا برسات کی


ابتدا جان خریف اور انتہا روح ربیع
ابتدا بھی ہے وہی جو انتہا برسات کی


اللہ اللہ گیسوئے مشکیں و شب گوں کی بہار
آسماں پر جس طرح کالی گھٹا برسات کی


التہاب و سوز دل ہیں باعث سیلاب اشک
ہے ازل کے دن سے گرمی رہنما برسات کی


اپنے مٹنے کے تصور میں ہے روتا آسماں
اور حقیقت کچھ نہیں اس کے سوا برسات کی


میرے اشکوں کی جھڑی سے پانی پانی ہو گئی
بن نہ آئی ایسی کچھ بگڑی ہوا برسات کی


اپنے دامن میں لئے زینت عروس نو بہار
اوڑھ کر آئی ہے گلشن میں ردا برسات کی


سرد و گرم دہر نے کھینچا وہ خط اعتدال
ٹھیک اتری جسم فطرت پر قبا برسات کی


یہ غزل لکھی تو ہے شعلہؔ مگر از روئے‌‌ فن
دے گئی چرکا شکست ناروا برسات کی