ماں/مرتبان

’’وہ ہینگ ملاپیڑا تھی۔اس کے ریزے ریزے میں سیاہ ہینگ گندھی ہوئی تھی۔مجھے اس کے ہاتھوں،پاؤں،گردن اور منہ وغیرہ سے جدا جدا قسم اور شدت کی بو آتی تھی مگر ہر بو میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔رفتہ رفتہ میرے ذہن میں عجیب وسوسے پیدا ہونے لگے۔ تھریڈنگ کے تیسرے چوتھے دن اگنے والے بھوؤں کے تازہ نیزے ،مجھے تعفن ذدہ تھوہر لگنے لگے۔سفید مخروتی انگلیوں کے سرے پر لہریادار ناخنوں کے بڑھتے سِرے باس دینے لگے تھے۔‘‘اس نے حسب عادت بغل میں ہاتھ ڈالا اور بغل گند سونگھ کرسوچتے ہوئے بولا:’’اس کے جسم سے اگنے اور بڑھنے والی ہر چیز اپنی نمو میں یا عدم اور وجود کے سنگم پر کہیں بدبودار ہوجاتی ہے۔میں اس کے قریب نہیں رہ سکتا۔کہیں میں بھی۔۔ ۔۔‘‘ وہ مجھ سے لپٹ کر رونے لگا۔
میں نے اسے اپنے کمرے میں رہنے کی اجازت دے دی۔اس نے بھیگی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا:’’ میں جو، نیا جہان دریافت کرنا چاہتا ہوں۔اس کے لیے تُو،میرے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ میرے ساتھ رہنے لگا۔
زین آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ شعور کی کس سیڑھی پر اسے پہلی بار اپنی سگی ماں اور ہینگ کے پیڑے میں مماثلت محسوس ہوئی تھی۔ لیکن دھند سے لتھڑی یادوں میں اسے اتناضرور یاد تھا کہ پہلے اسے اپنی ماں بدصورت نہیں لگتی تھی۔صرف اس کے خمیر سے اٹھتے بھبکے ازل سے یعنی کہیں قیدِ کوکھ سے ،زین کی حسِ شامہ کی جمالیات سے متصادم ہو گئے تھے۔اس مسئلے نے زین کے حسن و بد کے معیاربدل ڈالے تھے۔وہ بغیر سونگھے، کسی پری پیکرکو دیکھ کریہ فیصلہ نہیں کر سکتا تھا۔ کہ وہ خوبصورت ہے یا بدصورت۔
میڈم مہ پارہ فردوس کوئی عام عورت نہیں تھیں ۔وہ عالمی سطح کی مشہورعطر فروش تھیں۔ان کے کاروبار کے گھنے درخت کی شاخیں سات برِ اعظموں تک ثمر بار تھیں۔ایک عالم ان کے سرو قد کے زیرِ سایہ تھا۔وہ خوبصورت تھیں ۔چوڑے شانے،طویل قامت،بھرا بھرا جسم ،روشن کشادہ چہرہ، گفتگو،چال ڈھال،انداز،لباس وغیرہ وغیرہ ۔وہ ہر چیز میں یکتا تھیں۔ انھیں دیکھ کر ایسی نسائی وجاہت اور رعب کا احساس ہوتاتھا کہ ہر محفل میں ان کی حکمرانی خود بخود ہو جایا کرتی تھی ۔ بڑے بڑے لوگ ان سے بات کرتے ،ڈرتے تھے۔وہ کوئی آسان اور ارزاں عورت دکھتی ہی نہیں تھیں۔ منہ پھٹ اوردل پھینک،عیاش اربابِ اختیار اور اربوں پتی خریدا ر، ا ن کے سامنے دب جاتے تھے۔عطر فروشی کے کاروبار نے ان کا جسم مہکا دیا تھا۔ ان کی دراز قامتی مجھے بامیان کے بت سے زیادہ طویل دکھائی دیتی تھی ۔
سکول کے زمانے سے زین کا صرف میں ہی واحد دوست تھا۔جو اس کی پیچیدہ باتوں پر بزِ اخفش کی طرح سر ہلا دیتا تھا۔اس کے مہکتے گھر کی کشادگی نے میری حیثیت چیونٹی سے نہ بڑھنے دی تھی۔ جب کہ اس کی ماں میرے لیے حسین اور بلندترین بت سے کم نہ تھی۔ جس کی قامت بامیان میں بدھ کے مجسمے سے میلوں بلند تھی۔میں ان دنوں بدھ کے مجسمے کی ویڈیو کثرت سے دیکھا کرتا تھالیکن میڈم مہ پارہ فردوس کو میں نے کبھی آنکھ بھر کر نہ دیکھاتھا۔بت کو دیکھا نہ جائے تو وہ خدا بن جاتا ہے۔
زین شروع سے اپنی ماں اور میڈ کے بدن کی بو کے الگ ہونے کا تذکرہ کرتاتھا۔میڈیکل کالج کے زمانے تک وہ ہر قسم کی بوکے گرم اور ٹھنڈا ہونے کے علاوہ ان کے الگ رنگوں کے متعلق بھی اپنی جدااور نرالی منطق رکھتا تھا۔وہ ماں کے روائتی تصورکی طرح بو کے روائتی تصور سے بھی قوسوں دورتھا۔میرا خیال تھا کہ وہ’’ پرفیوم‘‘ فلم دیکھ کر ایسا کرتا ہے۔ ہیرو بنتا ہے ،انوکھی بات کر کے توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
میں غریب مالی کا وہ بد نصیب بیٹا تھا۔جسے باپ کا رحم دل مالک اچھے سکول میں پڑھا کرایک مسخ شدہ شخصیت کی تعمیر کر رہا تھا۔ میڈم مجھے حقیر سمجھتی تھیں۔انھوں نے مجھ چیونٹی صفت غریب کو برداشت کر لیا تھا،کیوں کہ تنہائی پسند زین میرے بغیرایک پل نہیں رہ سکتا تھا۔ حقارت کے ساتھ محبت کا جانے کیا رشتہ ہوتا ہے کہ میرا ان سے بہت گہرا تعلق قائم ہو گیا تھا۔گو کہ مجھے اپنی ہم سن لڑکیوں کی نسبت بڑی عمر کی عورتوں سے خاص رغبت تھی لیکن میڈم مہ پارہ فردوس سے میں بہت خوفذدہ رہتا تھا۔ میں انھیں اکثر خواب میں دیکھ کر ڈر جاتا تھا۔ان کا دراز قد ہیولادیکھتے ہی میں چیونٹی بن کر جائے پناہ کے لیے کوئی سوراخ ڈھونڈھتا پھرتا تھا۔
زین بہت عجیب تھا۔وہ دوسروں کی بڑی سے بڑی غلطی دیکھ کر انجان بن جاتا تھا۔میرے لیے تو وہ سب کچھ لٹانے کے لیے تیار رہتا تھا۔وہ اپنی قیمتی چیز یں جان بوجھ کرایسے رکھتا تھا کہ میں بغیر پوچھے اٹھا لوں ۔وہ مجھے چوری کا عادی بنا کر اپنی ضرورتیں پوری کرنا چاہتا تھا۔ میں اس کے لیے بہت ضروری تھا۔یہ کون سی ضرورت تھی جو میں پوری کر رہا تھا۔یہ میں نہیں جانتا تھا۔ اسے شاید ایک بے زبان کی ضرورت تھی۔ جس کے سامنے وہ سب کچھ اگل ڈالتاتھا۔میرا کام صرف خاموش رہ کر اس کی باتیں سننا اور اس کی ہاں میں ہاں ملانا تھا۔وہ بو کے متعلق اپنی معلومات میری ’’چپ‘‘ کے اگال دان میں تھوک کر، تازہ دم ہوجاتا تھا اور تازہ خیال اور نئے جہان کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا تھا ۔وہ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ میرا اور زیادہ عادی اور ممنون ہوتا چلاجاتا تھا۔
اس کا پسندیدہ موضوع ماں سے اٹھنے والے بھبکے تھے۔میں گھنٹوں بیٹھ کر زین کی بے معنی باتیں سنتا اور کبھی اختلاف نہ کرتا تھا۔لیکن اس کے باوجود،کبھی دل سے یہ ماننے کے لیے تیار نہیں تھا کہ اس کی گوری چٹی،سرو قد ،مہکیلی ماں بدبوداربھی ہو سکتی ہے۔یا میں کسی ایسی خاص بو کو محسوس کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔
میرے لیے کیا قیمتی تھا؟میں کیوں یہ سب کچھ سنتارہا تھا؟ یہ سماعت کی چاکری مجھ سے میری غربت کروا رہی تھی؟ زین کے گھر کی کشادگی تھی؟ اس کی دوستی؟ یا اس کی دراز قد ماں؟ ۔۔۔یا یہ سب چیزیں مل کر ایک ایسی کُل بنا رہی تھیں جس میں سے کسی ایک کو الگ نہیں کیا جا سکتا تھا۔
زین نے بہت عرصہ کوشش کی کہ اس بو کا ذکر ماں سے نہ کرے۔لیکن آخر کار اس کے نتھنے جواب دے گئے ۔وہ پھٹ پڑا۔ پہلے تو ماں نے خزاں زدہ درخت کی طرح اپنی ٹھنڈی چھاؤں سمیٹ لی ۔۔۔بدصورتی اور بدبوکایہ الزام ۔ یہ احمقانہ الزام۔ اور وہ بھی میڈم مہ پارہ فردوس پر جو پھولوں کی پتیوں سے جوڑ کر بنائی گئی تھی ۔جس کے ریزے ریزے میں دنیا جہان کی خوشبوئیں اکٹھی ہو کر ایک الگ مہک بنا رہی تھیں ۔وہ اس منفرد مشک کی ابتدا بھی تھی اور خاتم بھی ۔اس پر عفونت کا الزام۔۔۔؟وہ کیسا بیٹا تھا ۔ میڈم اپنے پیروں تلے جنت تلاش کرتی رہ گئیں۔
جب شدت حد سے بڑھ گئی تو بیٹے کوپاگل سمجھ کر علاج کروانے کی کوشش کی گئی مگر بیماری تھی کہ بڑھتی ہی جاتی تھی۔ ماں خود خوشبو کی طرح بکھر گئی۔وہ تو دنیا کو مہکاتی تھی۔ اس کامہکتا کاروبار، دفتر،گاڑیاں اورگھرسب ، نفرت سے ہینگ کے پیڑے بن گئے تھے۔ایک بیٹا جو کل کائنات تھا۔ وہ بات کرتا تو ناک پر ہاتھ رکھ کر۔زیادہ دیر پاس رکتا تو الٹیاں کرنے لگتا تھا۔اس کا دم واقعی گھٹنے لگا تھا۔سانس روکتا تو مرتا تھا۔بالآخر بیٹا تعفن کی وجہ سے اربوں کھربوں کی جائداداور طرح طرح کی آسائشیں چھوڑ کر بھاگ گیا۔اس مہکتی مہکاتی دیوی کے گرد بیٹا وہ بد بو کا جال بن گیا تھا کہ اس بے چاری کو پجاریوں کی منقبت سے وحشت ہونے لگی تھی۔بامیان کا بت جھکنے لگا تھا۔
اس نے گھر چھوڑا تو سیدھا میرے پاس ہی آیا اور رو کر منتیں کر کے میرے کمرے میں رہنے لگا۔اس وقت تک ڈاکٹر زین کے حواسِ خمسہ پر حسِ شامہ اس درجہ حاوی تھی کہ چھٹی حس تک اس کے سائے تلے دب کر رہ گئی تھی۔ وہ صرف ایک جیتی جاگتی حسِ شامہ تھا۔ اسے اپنے کمرے میں دیکھ کر مجھے شرمندگی ہوتی تھی ۔گنجان آباد علاقے کا یہ کمرا ،جہاں متوسط درجے کی سوچ رکھنے والے دوستوں کی بھر مار رہتی تھی۔مجھے ہر وقت یہی ڈر رہنے لگا کہ یہ اکیلے گھر میں پلا بڑھاعجیب فضول باتیں کرنے والا، ان لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا تو وہ اسے چند دنوں میں سائیں بنا دیں گے۔پھر وہ اپنا مہکتاہواگھر بدبودارکہہ کرچھوڑ آیا تھا ۔ میرا کمرا تو واقعی سڑا بُساہواتھا ۔وہ اس کے آگے کیا حیثیت رکھتا ہو گا ۔پر زین تھا کہ جانے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ وہ خوش تھا۔اب وہ آزادانہ سب کچھ سونگھ سکتا تھا۔وہ حسِ شامہ کی بدولت ذات اور کائنات کی دریافت چاہتا تھا۔ وہ حقیقتاً کچھ نیا کر رہا تھا۔
میڈم مہ پارہ فردوس نے مجھے ثالثی کے لیے بلالیا گویا دیو ہیکل بت چیونٹی تک جھک آیا تھا۔وہ زین سے ملنا چاہتی تھیں۔اسے قریب رکھنا چاہتی تھیں۔اس کا علاج کروانا چاہتی تھیں۔ میں ان کے پاس سے خوشبو میں مہکتا واپس آتاتو بیٹے کوصدقِ دل سے سمجھاتا۔ پر میرا دل چاہتا تھا کہ وہ میری ایک نہ مانے۔ خیر، وہ مانتا بھی نہیں تھا ۔وہ تو ماں کو مرتبان سے زیادہ اہمیت نہ دیتا تھا۔ وہ ماں سے ملنا نہیں چاہتا تھا۔جو بھی تھا اس ثالثی میں مجھے بہت لطف آرہاتھا۔
چند دنوں میں،میں نے ایسا ماحول بنا لیا تھاکہ میٹنگ کے آغاز پر میں وہ تلخ تیزابی جملے میڈم مہ پارہ فردوس پر انڈیل دیتا تھا جو زین نے شدید نفرت میں کہے ہوتے تھے۔ ۔۔وہ تلملا اٹھتیں۔جل بھن کر ٹوٹ پھوٹ جاتیں،اپنے بال نوچتیں، زار وقطار روتیں۔میں ان کے آنسو پونچھتا ان کو دلاسہ دینے کے لیے گلے لگاتا اور آخر میں ایسی ہیپی اینڈنگ کرتا کہ وہ بہت مطمئن ہو جاتیں ۔انھیں لگتا کہ زین بہت جلد ان کے پاس آجائے گا۔وہ بھی زین کی طرح میری ممنون اور عادی ہو رہی تھیں۔مجھے اپنی منافقت کا احساس تھا۔لیکن میں بامیان کے بت سے سرگوشیاں کرنا چاہتا تھا۔ زین نے مجھے چوری کا عادی بنا دیا تھا۔
زین کی میڈ کا خیال تھا کہ مجھے زین کا روحانی علاج کروانا چاہیے کیونکہ اس کے مطابق وہ گائے آسیب ذدہ تھی۔جو زین کے بچپن میں عید کے موقع پر لائی گئی تھی۔ گائے کا جب پیٹ پھول کر بڑا سا غبارہ بن گیا تھا تو ملازم نے سیاہ ہینگ آٹے کے پیڑے میں ڈال کر اسے دی تھی۔ اس وقت سے زین کے ذہن میں وہ بو بھرا آسیب سماگیا تھا کہ اب تک وہ بو کی عینک سے دنیا کو دیکھ رہا تھا۔ میڈم بھی بہت حد تک بازی ہارچکی تھیں۔اسی لیے انھوں نے’’ روحانیت‘‘ اور ’’آسیب‘‘ جیسے الفاظ بھی مجھ حقیر کی طرح قبول کرلیے تھے۔
میں نے شروع سے اب تک میڈم کو کبھی آنٹی یا ماں نہیں کہا تھا،البتہ جب سے یہ ثالثی شروع ہوئی تھی۔میں زین کو باتوں باتوں میں بیٹا کہہ دیا کرتاتھا۔اسے بیٹا کہنے سے مجھے عجیب لذت، خوشی ،تونگری اور کامرانی کا احساس ہوتا ،جو ناقابلِ بیان تھا۔
ادھر زین کی ذات کے وہ وہ گوشے کھلتے جاتے تھے جن کامیں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ وہ پوری کائنات کو نتھنوں سے دیکھتا تھا۔اب وہ مجھے پاگل نہیں بلکہ فلسفی لگنے لگا تھا۔وہ ایک حس کے سہارے جی رہا تھا۔اس حس میں اس کی مشاقی حیرت کو چھونے لگی تھی۔وہ اپنی اس حس کو اپنی طاقت بلکہ شناخت سمجھنے لگا تھا۔میں اس کے تجربات پر عملاً سوال جواب کرتا اوراسے آزمائش میں ڈالتا وہ ہمیشہ کامیاب ہوجاتاتھا۔
زین اکثر کچھ بتائے بغیر گم ہو جاتا ، ہفتوں اس کا پتا نہ چلتا، میں ڈر جاتا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ واپس ہی نہ آئے لیکن اس کی عدم موجودگی کا ذکر میں نے کبھی میڈم سے نہیں کیا ۔انھیں میں یہی یقین دلائے ہوئے تھاکہ میں اسے ڈاکٹر کو دکھا رہا ہوں۔جلد وہ اچھا ہو جائے گا۔اس میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے۔
میڈم کام کاروبار لوگوں پر چھوڑ کربہت حد تک گھر میں محدود ہو گئی تھیں۔بظاہر بہت تیار ہو کر رہتی تھیں،کسی پتھر کے عظیم بت کی آن بان ابھی بھی ان میں موجود تھی۔ لیکن میں محسوس کرنے لگا تھا کہ وہ دیمک ذدہ کھوکھلی لکڑی کی طرح کسی دن اچانک گرکر بورے کی طرح بکھر جائیں گی۔ وہ دن میں بارہا مجھے فون کرتیں۔شام کو روزانہ بلاتیں ۔ بیٹے کی ایک ایک بات پوچھتیں۔وہ میرے ہونٹوں سے اپنے بیٹے کو چلتا پھرتا دیکھتی تھیں۔میرے پاس جھوٹی تصویروں کی نہ ختم ہونے والی البم تھی ۔یہ ایک ایسا ڈرامہ تھا جس میں امید اور مایوسی کا ایک سسپنس تھا کہ نیکسٹ ایپی سوڈ بنا بات بنتی ہی نہ تھی۔
میں سارا دن کہانی بُنتا تھا۔ کلائیمکس اینٹی کلائیمکس پرسوچتا تھا۔ لیکن جب ان کے سامنے جاتا توایک نئی کہانی اس سے زیادہ بہتر انداز میں چل پڑتی۔میری ناآسودہ خواہشات وہ وہ افسانوی رنگ دکھاتیں کہ میں خود حیران رہ جاتاتھا۔بعض اوقات جھوٹ بولتے ہوئے مجھے ایسا سچ کا گماں ہوتا تھاکہ میں نم دیدہ ہوجاتا تھا۔ جب وہ پر سکون اور مطمئن ہو کر میرا ماتھا چومتیں تو میں اتنا ہلکا ہو جاتا جتنا کبھی میں سچ بول کر نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے ندامت کی بجائے اپنے چہرے پر عبد استار ایدھی جیسی معصومیت اور اطمینان نظر آتا تھا۔
مجھے زین کی حسِ شامہ سے بہت ڈر لگنے لگا تھا۔میرا میڈم سے ابھی کوئی ایساجسمانی تعلق توقائم نہیں ہوا تھا ۔جسے زین سے اتنا پوشیدہ رکھا جاتا لیکن پھر بھی چھپانے کی لذت میں ایک عجیب سی تسکین تھی۔جو مجھے بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔
ادھر زین تھا کہ دنوں میں پہلے سے کہیں زیادہ ماہر و مشاق ہوا جاتا تھا ۔وہ جھاڑیوں،جانوروں اور کیڑے مکوڑوں تک کی الگ بو کی تفصیل بتاتا۔ بیماریوں کی تشخیص میں بو کیسے موثر ہوسکتی ہے۔اس کا مشاہدہ مکاشفے کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔
اب اس کا ہاتھ بغل سے ناک تک بہت تیزی سے آنے جانے لگا تھا۔وہ اپنی بو پر بولتاتو مجھے حیرت ہوتی کہ اس گھٹیا بیماری میں بھی نرگسیت کا کوئی پہلو ہو سکتا ہے ؟ میں اسے دو چیزوں سے منع کرتا تھا۔ ایک ماں کے جسم کی بوکا سرِ عام اظہار ،دوسرا سب کے بیچ بیٹھ کر بغلوں پھرے ہاتھ کو سونگھنا۔ وہ ہنس کرعادت ترک کرنے کا کہتا ضرور تھامگر کرتا اپنی مرضی تھا ۔لوک ہاتھ سونگھنے کو معاف کر سکتے تھے ۔پر ماں کے خلاف برداشت کم ہوجاتی تھی۔لوگ ایک روایتی تصورکی لاٹھی چھوڑکر گرنا نہیں چاہتے تھے۔زین بے ساکھیوں کی بجائے اپنی ٹانگوں پر کھڑا تھا لیکن میری ٹانگیں کانپنے لگی تھیں۔
ایک دن میڈم کے پاس بیٹھے ہوئے اچانک کہانی ایسے رخ پر چل پڑی کہ میں خود حیران رہ گیا۔میں نے انھیں کہہ دیاکہ زین خواتین سے اٹھنے والی ایک خاص پاکیزہ خوشبو سے متاثر ہوتا ہے۔ اگر آپ اس خاص خوشبو سے خود کو معطر کر لیں تو شاید وہ آپ کو قبول کر لے۔وہ خوشبو کیا تھی۔۔۔؟یہ فیصلہ میری حسِ شامہ نے کرنا تھا ۔وہ ہر حالت میں بیٹے کو حاصل کرنا چاہتی تھیں۔حسِ شامہ ہی وہ سیڑھی تھی جو مجھے بامیان کے بت سے سرگوشی کا موقع دے سکتی تھی۔میری حسرتیں جی اٹھیں۔۔۔میرا قد بہت بڑا ہوگیا تھا ۔میں ہر قسم کی سرگوشی کر سکتا تھا۔ حسن کمبخت ڈھل کر کیا کیا جتن کرتا ہے ۔غرور کے خول میں عاجزی اورمسکینی کے کیسے کیسے بدنما ہیولے ابھرآتے ہیں۔میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔
اب میں زین کے گھر سے آتا تو طرح طرح کی خوشبو ،کریمیں اور لوشن استعمال کرتا تھا۔میں بہت خوش تھا کہ اسے کبھی مجھ پر شک نہیں ہوا۔ویسے بھی میں ان ماں بیٹے کے ساتھ رہ رہ کر خوشبوکا ماہرہو گیا تھا۔میں جانتا تھاکہ ہر آدمی ہر بو کو نہیں سونگھ سکتا ۔جیسے کچھ لوگ کلر بلائینڈ ہوتے ہیں۔اسی طرح کچھ خوشبو کے اندھے بھی ہوتے ہیں۔مجھے محسوس ہوتا تھا کہ میرے معاملے میں زین خوشبو کا اندھا تھا۔وہ مجھے سے
ہینگ کی بو محسوس نہ کر سکتا تھا۔ویسے بھی جب سے ثالثی شروع ہوئی تھی۔وہ مجھ سے ذرا ہٹ کر بیٹھتا تھا۔ میں بھی اس سے تھوڑا فاصلہ رکھتا تھا۔مجھے اس کی مہارت پر شک نہیں تھا بلکہ اپنے کامیاب ہونے پر مسروررہتا تھا۔
مجھے احساس ہوا کہ چیونٹی صرف زمین اور آسمان کے درمیان حقیر ہوتی ہے۔تنگ و تاریک سوراخ میں جب اس کا سر چھت سے ٹکراتا ہے تو وہ ڈئینوسارکی طرح دیوہیکل ہوجاتی ہے۔میں اب حقیر نہیں رہا تھا۔جیسے میڈم اب اتنی طویل قامت نہیں رہی تھیں،جتنی وہ ہوا کرتی تھیں۔میری احساس کمتری ختم ہو گئی تھی یا کوئی انتقام کی آگ تھی جو بجھ گئی تھی یا حسن ہاتھ میں آ کر بے وقعت ہو گیا تھا یا عمر تھی کہ ڈھل گئی تھی یا وقت تھاکہ گزر گیا تھا۔یہ کیا تھا مجھے نہیں پتا۔
زین کے پاس چراند ، کھراند ،بساند کی ،کھٹی ،میٹھی،ترش،کڑوی اور نمکین بو کی ۔سرخ،سفید،سیاہ اور سبز بو کی ،تیز اورہلکی کی ،لونگ ،پودینہ ،لوبان ،الائچی وغیرہ وغیرہ کی ، اتنی قسمیں تھیں۔اس کے پاس ہر قسم کے انسان پر اثرات کی اتنی معلومات تھیں۔ اس کے ریسرچ پیپرز کی شہرت ماں کے کاروبار کی طرح وہاں تک ثمر بار ہو گئی تھی۔جہاں کاہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔اسے آئے دن دنیا بھر کی یونی ورسٹیز سے دعوت نامے آنے لگے وہ چند دنوں میں شہرت اور عزت کی نئی دہلیز پر تھا ۔یہ عجیب تخریب میں تعمیر تھی ۔بے عزتی اور شرم ناک ذلت سے یوں عزت کے در کھل رہے تھے کہ میں حیران رہ گیا۔
قدرت اس پر مہربان تھی۔اس پرکائنات کے وہ در وا ہو رہے تھے۔جو آفرینش سے مقفل تھے ۔ وہ سونگھ کرخلیوں کے نہاں خانوں سے بیماری کے ظہور کا وقت بتا نے لگا تھا۔اس کی حسِ شامہ الہام کو چھونے لگی تھی۔وہ دریافت کے نشے میں غرق تھا۔
زین ماں کی زہریلی بو سے تریاق تیار کر چکا تھا۔ میڈم،غرور کے معطر مینار سے ہینگ کی دلدل میں دھنستے دھنستے روحانیت کی بلندی پر پھر سے مہکنے لگی تھی۔ان کے ٹرسٹ سے کئی بے سہارالوگوں کا بھلا ہورہا تھا۔ میری صدیوں کی بھوک اورغربت اب ان ماں بیٹے کے بغیر بھی سونے کی اینٹوں میں تسکین پا رہی تھی۔
میڈم مہ پارہ فردوس اب مجھے عام سی عورت لگتی تھیں۔ایک پتھر سے طویل عرصہ کون سرگوشی کر سکتا ہے ۔مجھے اکتاہت ہونے لگی تھی۔میں انھیں زین کی لاعلاج بیماری دکھا کرمایوسی کی کھائی میں دھکا دینا چاہتا تھا۔ میں آزاد ہونا چاہتا تھا۔میں جانتا تھا کہ وہ یہ سب کچھ نہیں سن سکیں گی۔لیکن میری خود غرضی انھیںیہ سب سنانا چاہتی تھی۔میں ان دنوں وہ ویڈیو بار بار دیکھتا تھا جس میں بامیان کا عظیم بت ایک دھماکے سے ریت بن کر خاک میں مل گیاتھا۔
میں نے میڈم کو ایک پردے کے پیچھے چھپا دیا ۔زین کو ان کی موجودگی کا نہیں پتا تھا ۔میں نے زین کو چڑانے کے سے انداز میں سمجھاناشروع کیا کہ وہ ماں سے صلح کر لے ۔میں نے کہا:’’ماں کے مرتبے کو دیکھ۔۔۔اس نے پیدا کیا ہے تجھ کو۔۔۔وہ تیری خالق ہے۔ ‘‘یہ آخری جملہ میں نے خاص اس کو چڑانے کے لیے بولا، اس نے غصے اور حیرت سے مجھے دیکھا۔لوہا سرخ دیکھ کر میں نے وہ تمام روائتی گھسے پٹے جملے،جو ماں کی عظمت میں بولے جاتے ہیں۔۔۔ وہ سب اوپر تلے کہہ ڈالے۔۔۔ بالآخروہ پھٹ پڑا :’’یہ ماں کیا ہوتی ہے ۔میں ایسے کسی رشتے کوویسے نہیں مانتا، جیسے تم مانتے ہو۔تم مجھے یہ کیوں باور کروانا چاہتے ہو کہ وہ میری خالق ہے۔اس نے مجھے تخلیق نہیں کیا ،صرف میرے پیدا کرنے کا ذریعہ تھی وہ۔۔۔وہ میری تخلیق کار نہیں ہے۔ارے بے وقوف، دردِ زہ اورتخلیقی کرب میں بہت فرق ہوتا ہے۔وہ مشین کی طرح مجھے پیدا کرنے پر مجبور ہے۔۔۔یہ بات تم لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ مرتبان اچار تخلیق نہیں کرتا۔ اس میں صرف اچار بنتا ہے ۔عورت بچہ پیدا کرنے پر مجبور کردی گئی ہے۔اور بس۔وہ ظالم دشمن اوربدصورت زبردستی کرنے والے کوبھی بچہ جن دیتی ہے۔ وہ مجبور ہے ۔وہ ذریعہ ہے ۔میں نے کہا نا! اس کا نام بھی نہ لیا کر میرے سامنے ۔میں زندہ ہوں تو صرف اس دن تک جس دن مجھے اپنے آپ سے اس ہینگ ملے پیڑے یا مرتبان کی بو نہیں آتی ۔کہا جو ہے !!! اس سے جوچیزیں اگتی یا پھوٹتی ہیں ۔وہ بدبو دار ہو جاتی ہیں۔ میری تخلیق کا ذریعہ بھی وہی ہے۔تم مجھے تنہا چھوڑ دو ،اس نے پردے کی طرف دیکھ کر کہا دیکھو! مجھے اس کے ذکر سے اتنی بو آرہی ہے۔جیسے وہ پردے کے پیچھے موجود ہو۔‘‘پھر مجھے اس نے عجیب معنی خیز انداز سے دیکھا اورہاتھ جوڑ کر کہا:’’میرے باپ۔۔۔میرے باپ مجھے تنگ نہ کیا کر ۔۔۔کچھ سمجھا میرے باپ۔۔۔مجھے تو۔۔۔ ‘‘ وہ اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے،وہ میرے اور میڈم کے متعلق سب کچھ جانتا ہو۔ اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا:’’میں تجھے اس لیے برداشت کر رہا ہوں کہ تو میرے اور میری دریافت کے بیچ کا ذریعہ ہے اور تویہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ذریعہ وہ حیثیت نہیں رکھتاکہ اسے خالق کی طرح پوجا جائے۔۔ ۔ مجھے تو تجھ سے بھی ہینگ ۔۔۔اس نے ناک پر ہاتھ رکھا اوروہیں الٹی کردی ۔ اس نے شاید ماں کی موجودگی سونگھ لی تھی۔ میں نے میڈم کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں سے دکھ کے قطرے چہرے پر رینگ رہے تھے۔انھوں نے دونوں ہونٹ دانتوں کے بیچ دبارکھے تھے۔ان کے سکڑتے پھیلتے ناک کے نتھنے ،مسلسل حرکت کرتی ماتھے کی سلوٹیں اورٹھوڑی کے اکڑتے ،ڈھیلے پڑتے پٹھے بہت بدصورت لگ رہے تھے۔کیا وہ ایسی تھیں؟؟میں نے سوچا زین ٹھیک ہی کہتا ہوگا۔ان سے سیاہ ہینگ کی بو آتی ہوگی۔ میں شاید انھیں ٹھیک طرح سے سونگھ ہی نہیں سکا تھا۔آخرہر آدمی ،ہر قسم کی بو کو محسوس نہیں کر سکتا۔