آئی ایم سوری ژندی جان!
’’ژندی جان!۔۔۔آئی ایم سوری یار!۔۔۔میں کہانی بھول گیا تھا۔جب یاد آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔۔۔خیر تم اس بات کو چھوڑواور کہانی سنو!۔۔۔زرد کلغی والے مرغ کی کہانی۔
ایک پنجرے میں کئی مرغ اور مرغیاں رہتے تھے۔پنجرہ بہت بڑا تھا۔اتنا بڑا کہ اس کی سلاخیں نظر نہ آتی تھیں۔سلاخیں نظر نہ آنے کی وجہ سے کسی کو قید کا احساس نہ ہوتا تھا۔
احسا س ہوتا بھی کیسے؟وہاں تو پہاڑی سلسلے بھی تھے۔جن پر جابجا جھرنے پھوٹتے تھے۔سبز گھاس کے قطعے بھی تھے۔شفاف جھیلیں بھی تھیں۔انواع واقسام کے پودے اور درخت بھی تھے۔دانا دُنکا،کیڑے مکوڑے،تتلیاں پتنگے بھی وافر تھے۔مرغیاں اپنی سریلی آواز میں کرانکتی پھرتی تھیں۔مرغے پر پھڑپھڑاکر ،سینہ تان کر بانگیں دیتے تھے۔زندگی پھولوں کی خوشبوؤں اور رنگوں میں لپٹی ہوئی گزر رہی تھی۔
ایک جھیل کے کنارے درختوں کے جھنڈ میں کچھ خود رَو جھاڑیاں تھیں۔ ان میں سے ایک جھاڑی میں ایک مرغی نے انڈے دے رکھے تھے۔جب اسے انڈے سیتے اکیس دن گزر گئے ،تو ریشم کی سی ملائم بُر والے چوزے نکل آئے۔جھاڑی تازہ زندگیوں سے جھولنے لگی۔چُوں چُوں کی آواز سے مرغی مسرو ر ہونے لگی۔ننھے ننھے چوزوں کی حرکت سے مرغی کے پروں تلے اور سینے اور ٹانگوں پر گُدگُدی ہونے لگی۔ یہی اس کی محنت کی داد تھی۔۔۔یہی اس کی خوشی تھی۔
چوزوں کوکھلانے کے لیے جب وہ انڈوں کے خالی خول توڑ کر کُٹ کُٹ کرتی تو وہ دوڑ کر باہر نکل آتے۔مرغی انھیں دیکھ کر سرشار ہوتی اور ان کی حفاظت میں اور مستعد ہو جاتی تھی۔
مرغی کے ان پیارے پیارے بچوں میں وہ چوزہ بھی تھاجو بعد میں زرد کلغی والا مرغ بنا۔خیر ان دنوں تو جب وہ ماں کے مضبوط پروں سے نکل کر انگڑائی لیتا تو زندگی اس کے ساتھ جھوم جاتی تھی ۔وہ جب ادھرادھر چھلانگیں لگاتا تو کائنات اس کے سنگ بچہ بن کر اچھلتی اور اَٹکھیلیا ں کرتی تھی ۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہ بہت خوش تھا۔ مزے ہی مزے تھے۔ماں کا سائبان جو موجود تھا،نہ کوئی خوف نہ خطرہ نہ خوراک کی فکر،کھیل ہی کھیل،ہر بات کھیل۔ادھر ماں نے پتنگا پکڑا اور کُٹ کُٹ کی ادھر دوڑیں لگ گئیں۔کوئی ایک پہلے بھاگتا ہوا ماں کی چونچ سے شکار لے اڑا، باقی سب اس کے پیچھے پیچھے، کسی نے آدھا چھینا، کوئی، بھوکا رہا ،کوئی کھا گیا ،کوئی منہ تکتا رہ گیا لیکن اس چھینا جھپٹی میں بڑا مزہ آتا تھا۔موجیں ہی موجیں تھیں۔خوشیاں پہاڑ کی چوٹی پر جمی برف کی طرح چمکتی تھیں۔پہاڑ کی تہہ میں لاوے سے سب بے خبر تھے۔
ایک دن مرغی کو بھُربھُری مٹی نظر آئی اور وہ اس میں کُھربُل کرنے لگی،چوزوں کو یہ کام بہت پسند آیا۔پہلے پنجوں سے مٹی نرم کرنا، اسے پروں میں بھرنااور پھراس میں لوٹ پوٹ ہونا،واہ واہ!!۔۔۔ ایسا مزہ تو انھیں پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔یہ مستی تو پتنگے کی چھینا جھپٹی سے بھی زیادہ پر لطف تھی ۔ابھی یہ چوزے ماں کی دیکھا دیکھی کُھر بُل کر ہی رہے تھے کہ ایک پتنگا قریب سے گزرا، باقیوں کو تو پتا بھی نہ چلا مگر ایک دو چوزے اس کے پیچھے بھاگ پڑے اور ماں سے کچھ دور چلے گئے۔ وہ ہوا میں اچھل اچھل کر اسے پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ شکار چونچ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ خود شکار ہو گئے۔
قریب ہی کوئی بلی شکار کی منتظر تھی۔اس نے جو چوزے دیکھے تو ان پرجھپٹ پڑی اور ایک چوزے کو پکڑ لیا۔چوزے نے بہت شور مچایااورخود کو بچانے کی بہت کوشش کی۔ادھر مرغی نے جو چوزے کی آواز سنی تو غصے اورخوف سے چلائی۔ بلی کی طرف پر پھیلا کر بھاگ پڑی ۔سب چوزے جہاں تھے سہم کر زمین سے چپک گئے۔مرغی نے بہت کوشش کی مگر بلی چوزے کو اپنے نوکیلے دانتوں میں دبا کر بھاگ گئی۔مرغی پریشانی سے پَر پھیلائے باقی بچوں کی طرف لوٹ آئی۔ انھیں پروں تلے سمیٹ لیا۔۔۔کچھ دیر تک خوف ناک آوازیں نکالتی رہی،جس سے سب بہت ہی زیادہ خوفزدہ رہے۔
وقت نے کچھ ہی دیر میں فراموشی کے پردے سرکا دیے۔پھر وہی اچھل کود ،دھوم دھڑکے شروع ہو گئے۔لیکن وہ خاص چوزہ ، جو بعد میں زرد کلغی والا مرغ بنا تھا،باقیوں کی نسبت زیادہ دیر تک اس معصوم چوزے کی دہشت ناک آواز اپنے کانوں کے پردوں پر رینگتی ہوئی محسوس کرتا رہاجسے بلی نے شکار کیا تھا۔شاید وہ سب سے زیادہ ڈر گیا تھا یا شاید زندہ رہنے کی ہَوَس اس میں باقیوں کی نسبت زیادہ تھی۔
کچھ دن جب اور گزرے تو ان چوزوں کا تعارف اپنے قبیلے سے ہوا۔اب یہ تمام چوزے ماں کے علاوہ اپنے قبیلے کے باقی مرغے مرغیوں سے بھی زندگی کے گر سیکھنے لگے تھے۔ان کے پَراوردُم نکل آئی تھی۔جسم سے بُر تیزی سے جھڑ رہی تھی۔مرغ یا مرغی ہونے کی شناخت جسم پر سجنے لگی تھی۔گلابی کلغیاں نکل آئی تھیں۔زندگی کے اس دور میں ،اچانک ایک تبدیلی رونما ہوئی۔تبدیلی یہ تھی کہ ان کے کھیل لڑائیوں میں بدل گئے۔
پہلے تو یہ صرف ننھے ننھے پر پھیلا کر انگڑائی لیتے، پھر ادھر ادھر بھاگ کر،مذاق میں ایک دوسرے سے لڑنے کے انداز بناتے، گردن کے پر اکڑا لیتے لیکن دوسروں کو گزند یا تکلیف پہنچائے بغیر چگنے میں مصروف ہو جایا کرتے تھے۔
اب ہوا یوں کہ مذاق ہی مذاق میں کسی ایک کو چوٹ لگ گئی۔اس نے غصے میں دوسرے کی جلدادھیڑ دی اور لڑائی شروع۔ یہ لڑائی اچانک تمام چوزوں میں پھیل گئی۔کسی عالمی جنگ کی طرح ۔۔۔بڑی سنجیدگی سے۔۔۔کیونکہ یہ جنگ ،اقتدار کی جنگ تھی۔اس سے آئندہ کے فیصلے ہونے تھے کہ کون سب سے زیادہ طاقتور ہے؟کس کا خوراک پر زیادہ حق ہے؟کون قبیلے میں سینہ تان کر اذان دے گا؟ کون مرغیوں سے آزادانہ مل سکے گا؟تمام آسائشوں پر کس کا پہلا حق ہو گا؟
اس چوزے کی کلغی ابھی اپنے ہم عمروں کی طرح گلابی ہی تھی۔اس نے بھی ان جنگوں میں حصہ لیا۔بقا کی جنگ میں وہ زخمی بھی ہوا ۔کئی سرکشوں کو اس نے زیر بھی کیا اور بعضوں سے اسے شکست بھی ہوئی۔جب ہار جیت کا یہ قصہ ختم ہوا اور آئندہ کی زندگی کے اہم فیصلے ہو چکے تو اس رات وہ تھکن سے چور ہو کر ماں کے پروں تلے دبک کر پچھلے دنوں کے واقعات پر سوچ رہا تھا کہ اسے پنجرے کی سلاخیں کہیں دور افق پر دکھائی دیں۔گھٹن کا ہلکا سا غبار اس نے دل پر محسوس کیا۔
اگلی صبح وہ ان چوزوں کو مارنے کے لیے بھاگتاجن پر اس نے فتح پائی تھی اورجن سے اس نے شکست کھائی ان سے دور رہنے کی کوشش کرتا تھا ۔رفتہ رفتہ سب کچھ طے ہو گیا ۔اس طرح مارنے یا مارکھا نے کی نوبت نہ آتی تھی۔جب طاقتور آتا تو کمزور خود ہی الگ ہو جاتا تھا۔ کیونکہ خوراک اور آسائشوں پر پہلا حق طاقتورکا تھا ۔
طاقتور کمزور کو مارتا تھا۔مگر یہ ماں اچانک طاقتورکیسے ہو گئی تھی؟ماں کے رویے میں تلخی دیکھ کر وہ چوزہ بہت پریشان ہو گیا تھا۔ جب سے اس کے نئے پر نکلے تھے اور اس نے کُڑک کُڑک کے ساتھ کرانکنا بھی شروع کر دیا تھاان دنوں سے وہ کچھ لا پروا سی ہو گئی تھی لیکن اب تو اس نے باقاعدہ مار کر الگ کر دیا تھا۔مہربان ماں بے رحم ہو گئی تھی۔
پہلی رات جو اس نے کھلے آسمان تلے گزاری۔وہ اس کے دل کی بے رونقی بڑھا گئی تھی ۔اس دن اسے سب کچھ بہت فضول سا لگا ۔ بے آسرا پن نے اسے دبوچ لیا۔سلاخیں اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتی رہیں ۔گھٹن کچھ اور بڑھ گئی۔اس کی سرخ ہوتی کلغی گلابی ہی رہ گئی تھی۔
آہستہ آہستہ وہ کھلے آسمان کا عادی ہوگیا۔زندگی اسے اپنی طرف کھینچنے لگی۔مرغیوں کے پَروں کی چمک،ان کے کرانکنے کی آوازاسے بھلی لگنے لگی۔
وہ دن اس کے لیے بہت بڑی خوشی کا دن تھاجب اس نے پہلی ادھوری اذان دی تھی۔اپنے مکمل مرغ ہونے کا احساس اسے بہت اچھا لگا۔کیونکہ یہ احساس لذیذ خوراک دوسروں سے چھیننے،کھربل کرنے اور جنگ جیتنے سے بھی کہیں زیادہ خوشگوار تھا۔اس دن اذان دینے کے بعد وہ ایسے اترا اترا کر چلتا رہا کہ اس کا پورا پنجہ زمین پر نہ لگتا تھا۔وہ بے کراں فضاؤں میں اڑتا رہا۔
پہلے دن تو اس کی خوش قسمتی تھی کہ کوئی اور مرغ وہاں موجود نہ تھا۔لیکن اگلی صبح جب اس نے اذان دی تو کئی طاقتور مرغ اس کے ا ردگرد موجود تھے جنھیں اس کا مکمل ہوناایک آنکھ نہ بھایا۔ انھوں نے عجیب حرکت کی۔ادھر اس نے اذان شروع کی ادھر وہ اس پر جھپٹ پڑے۔اس بے چارے کو بھاگ کر اذان مکمل کرنا پڑی اسے یہ زباں بندی بہت بری لگی۔ خوشی کا احساس غارت ہو گیا۔مکمل ہونا ادھورا رہ گیا۔مرغیوں کے سامنے یہ ذلّت۔۔۔مگر اب کیا ہوسکتا تھا؟وہ اتنے مرغوں سے لڑ تو نہیں سکتا تھا۔۔۔ اس کا غرور خاک میں مل گیا۔
اس کے باوجوداس کے دل میں مرغیوں کی کشش تھی کہ بڑھتی ہی جا رہی تھی۔اس کی کلغی اپنے ہم عمروں کے مقابلے میں کم سرخ تھی لیکن زندگی بڑھانے والے جرثومے اس میں ہلچل پیدا کر رہے تھے۔ اب یہ پورا مرغ تھا۔بانگ دینے والا۔مرغیوں کی کشش نے اسے کھانا پینا بھلا دیا تھا۔نسل بڑھانے کی قوت لذت کے سنگ ٹھاٹھیں مار رہی تھی۔جب بھی یہ مرغیوں کی قربت حاصل کرنا چاہتاتھا طاقتور اسے دور دھکیل دیتے تھے۔
اسے ابھی تک کسی مرغی کاقرب میسر نہیں آیا تھالیکن اپنے پنجوں تلے ان کے چمکتے پروں کی سرسراہٹ اورچونچ اورزبان پر انکے سرکے بالوں اور کلغی کا ذائقہ اسے دیوانہ کیے رکھتا تھا۔وہ ان کی طرف بھاگتامگر کوئی نہ کوئی مصیبت حائل ہو جاتی۔زندگی مقابلہ تھی۔ ۔۔۔مگر کیوں؟؟یہ اسے نہیں پتا تھا۔
ایک دن وہ مرغیوں کو اپنے مکمل ہو نے کی نوید سنانے کے لیے پَر پھڑ پھڑاہی رہا تھا کہ قبیلے کا بوڑھا سردار جھاڑیوں کے پیچھے سے بھاگتا ہوا نکلا۔زرد کلغی والا مرغ حملے کے ڈر سے پیچھے ہٹ گیالیکن کیا دیکھتا ہے کہ بوڑھے سردار کے پیچھے ایک جوان سرکش مرغ بھاگتا آ رہا ہے۔وہ ان دونوں کو غور سے دیکھنے لگا۔جب وہ اس کے قریب سے گزر کر جھیل کے کنارے پہنچے تو جوان مرغ آہستہ ہو کر رک گیا۔ بوڑھا سردار پھر اس کی طرف مڑا۔ کافی دیر تک لڑائی جاری رہی۔دونوں لڑ لڑ کرہلکان ہو چکے تھے۔ان کے منہ ،چونچیں او ر کلغیاں میں لت پت ہو رہی تھیں۔زبانیں لٹکی ہوئی تھیں۔بالآخر جوان مرغ نے بوڑھے سردار کی گردن میں چونچ پیوست کی اور دونوں ٹانگیں جوڑ کر اس کے سینے پر ماریں اور قصہ تمام ہوا۔نئے سردار کا دور شروع ہو گیا۔
یہ دیکھ کر نوجوان مرغ کے دل میں دنیا کی بے ثباتی رچ بس گئی۔رات کو درخت پر بیٹھ کر وہ سوچتا رہا ۔یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ بوڑھے سردار نے کیاحاصل کر لیا؟ نیا سردار کیا حاصل کر لے گا؟ لایعنی اور بے معنی پن نے پنجرے کی سلاخوں کو اس کے اور قریب کر دیا۔ اس نے شدید گھٹن محسوس کی اور اس کی کلغی زردی مائل ہو گئی۔۔ ۔ابھی وہ اسی غم میں مبتلا تھاکہ وبا پھوٹ پڑی،کئی مرغے اور مرغیاں سر نہوڑائے کھڑے رہتے۔کچھ کھاتے نہ پیتے پھر بیٹھ جاتے، چونچ زمین پر ٹیک دیتے اور مر جاتے تھے۔اس بیماری نے قبیلے کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔بیماری جب قبیلے سے رینگ کر گزری تو بہت ہی کم مرغیاں اور مرغے زندہ بچے تھے۔اس نوجوان مرغے نے شدید تنہائی محسوس کی سلاخیں اس کی آنکھوں سے جڑ گئیں ۔گھٹن نے دل کو جکڑ لیا۔
جہاں کئی کمزور مرے تھے۔وہاں بہت سے طاقتور بھی گل سڑ کر ختم ہو چکے تھے۔بظاہر اسے خاصی آزادی حاصل ہو گئی تھی۔ اس سے طاقتور ایک دو مرغ ہی زندہ بچے تھے۔وہ بھی اکثر دانہ دنکا چگتے دور نکل جاتے تھے۔ا ب یہ زیادہ آزادی سے مرغیوں کے ساتھ گھوم سکتا تھا۔ زیادہ آزادی سے خوراک حاصل کر سکتا تھا۔زیادہ آزادی سے بانگ دے سکتا تھا۔۔۔لیکن وبا نے اسے آزاد کہاں چھوڑا تھا۔یہ آزادی تو باقیوں کے لیے تھی۔جنھیں برف سے چمکتی چوٹیوں کی تہہ میں دکھ کے سرخ لاوے کا احساس نہیں تھا۔اسے توپنجرے کی سلاخیں دل پر محسوس ہونے لگی تھیں۔اس کی کلغی پوری طرح زرد ہو گئی تھی۔۔۔بلکہ کلغی کی زردی اس کی سوچوں میں اتر گئی تھی۔ وہ زندگی کی طویل زنجیر کی کڑیوں کا تسلسل تھا۔اسے اپنا دائرہ پورا کرنا تھا۔ایک سیدھے سریے کو جسم کی حدّت سے گزار کے زنجیر میں اس طرح کڑی بنا کر پرونا تھاکہ اگلی نسل اس سے اپنی کڑی جوڑ سکے۔۔۔لیکن اس سے دائرہ مکمل نہیں ہو رہا تھا۔اسے ان ننھے چوزوں سے شدید محبت تھی جو اس کے اندر ابل رہے تھے۔جنھیں اپنا آپ سونپ کر اسے فنا کی حسین وادیوں میں گم ہو جانا تھا۔۔۔مگر اس کی سوچوں میں کلغی کی زردی شامل ہو گئی تھی۔اسے سب کچھ زرد دکھائی دینے لگا تھا۔۔۔سلاخوں میں جکڑا ہوا۔۔۔گھٹن میں لپٹا ہوا۔
ان سلا خوں اور گھٹن کے باوجود زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ مرغیوں کے پروں میں جگمگا تی تو اس کے پیروں تلے گُدگُدی ہونے لگتی۔اس کی چونچ،مرغیوں کی کلغی اور رنگین بالوں کے ذائقے سے بھر جاتی تھی۔کائنات رقص کرنے لگتی۔اس کے اندر غم اور خوشی۔۔موت اور زندگی کی چھینا جھپٹی شروع ہو جاتی ۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے بچپن میں ماں کی چونچ میں پتنگا دیکھ کر یہ سب چوزے اس پر جھپٹتے اور آدھا حصہ ایک لے جاتا تھا اور آدھا دوسرا۔ بالکل اسی طرح غم اور خوشی بلکہ رجائیت اور قنوطیت اسے آدھا آدھا کر دیتی تھیں اور یہ پتنگے کی طرح تڑپتا رہ جاتا تھا۔۔۔برف سے چمکتی چوٹی اور تہہ میں موجود لَاوا آپس میں گڈمڈ ہو جاتے تھے۔
اس کشمکش میں وہ تھک ہار گیا۔۔۔کبھی ایک طرف کبھی دوسری طرف۔۔۔ بالآخر اس نے زندہ رہنے کے لیے ایک نیا اور انوکھا راستہ ڈھونڈھ نکالا۔۔۔وہ مر غیو ں کے پاس جاتا ضرورتھامگر ایسے کہ زنجیر کی کڑی مکمل نہ ہونے پائے تاکہ اس کے اندر ابلتے ننھے چوزے پنجرے کی قید تک نہ آنے پائیں۔۔۔مرغی کی پِیٹھ پر اس کی دُم کبھی نہیں جھکتی تھی ۔۔۔زندگی بڑھانے والے جرثومے رزقِ خاک ہو جاتے تھے۔وہ اس نئی راہ ملنے پر بہت خوش تھا۔عرصہ گزر گیا۔وہ بہت مطمئن تھا۔۔۔ایک دن پتا نہیں کیا ہوا۔۔۔وارفتگی میں اس کی دُم جھک گئی۔۔۔وہ چلایا۔۔۔’’او ہو!! ’’یہ کیا ہو گیا مجھ سے؟‘‘۔۔۔غلطی ہو گئی اس سے۔۔۔اب افسوس کے سوا کیا ہو سکتا تھا؟؟
یہ تھی زرد کلغی والے مرغ کی کہانی ۔۔۔ آئی ایم سوری۔۔۔ ژندی جان!‘‘