کتبے کے نیچے
پھپھو نے میرو مسلی کو بکرا بنے دیکھ کر، ایک ہی وارمیں اس کا سر کھول دیا تھا پھروہ بی بی کو مکوں،تھپڑوں اور ٹھڈوں سے نیلو نیل کر کے بھی مطمئن نہ ہوئیں تو بالوں سے گھسیٹ گھسیٹ کر دیوار سے پٹختی رہیں۔ بڑا کمرہ دیر تک ان کی بے ترتیب سانسوں سے تھرتھراتا رہا۔جب سانس کچھ بحال ہوئی تو بولیں،’’ پتا ہے نا!بڑے چودھری جی کا ۔جانتی ہو ان کے غصے کو۔۔۔پھر یہ سب کیوں؟۔۔۔یاد ہے باہر سے منگوائی لاکھوں کی کتیا کو بد ذات کتے سے پھنسادیکھ کرکیا کیا تھا انھوں نے ؟ارے کنجری تیری تو قیمت بھی کچھ نہیں ہے۔مجھے دیکھ زندگی برباد کر لی پر باپ دادا کا شملہ نیچے نہیں ہونے دیا۔ حیران ہوں تجھ سے صبرکیوں نہیں ہوتا ۔کیا آگ لگی ہے تیرے اندر۔۔۔میں تو کہتی ہوں رکھ تلی پر اور بیٹھ جا چوک میں حرام زادی۔ جی تو چاہتا ہے ابھی بلاؤں چودھری بخت کو۔۔۔وہ خود دیکھے اپنی عزت ،ان مسلیوں کے پاؤں میں اورتجھے یہیں لیرو لیرو کرکے زمین میں گاڑ دے۔‘‘ پھر کچھ سوچ کر حکم دیتے ہوئے بولیں، ’’اب سن !یہ پکڑ کلھاڑی کر اس کے ٹوٹے تا کہ تیری جان تو بچے۔‘‘ دیوار سے دبکی بی بی نے نفی میں سر ہلایا، تو پھپھو پھرشیرنی کی سی تیزی سے اس پر جھپٹ پڑیں ۔ بالوں سے کھینچ کرمیرو کی طرف گھسیٹتے ہوئے کہا ،’’ کاٹ حرامزادی! کاٹ ڈال اسے۔‘‘بی بی نے برہنہ جسم چادر سے ڈھانپتے ہوئے صاف کہہ دیا ،’’میں ایسا نہیں کروں گی۔‘‘ پھپھو پھر چلائیں،’’ یہ مر گیا ہے تیراعاشق ،اب اسی میں عزت ہے کہ کراس مسلی کے ٹوٹے ٹوٹے ۔ہم یہ کہیں گے کہ تونے عزت بچانے کے لیے۔۔۔دیکھ دیر نہ کر ۔‘‘بی بی پھٹی پھٹی آنکھوں سے میرو کے گھٹنے پر بنے گٹے کو دیکھتے ہوئے بولی ،’’میں۔۔۔میں ایسا نہیں کروں گی۔اسے میں نے خود بلایا تھا۔‘‘پھپھو کے منھ سے آگ نکل رہی تھی،’’ ٹھہر توں کنجری تیری تو۔۔۔‘‘مارنے کے لیے پھر بڑھنا چاہتی تھیں مگررک گئیں ۔بڑے کمرے سے باہر نکلتے ہوئے ،’’پہلے میں تیری اس دَلی ماں کو بلالاؤں وہی فیصلہ کرے تیرا ۔۔۔تیراتو سارا نانکا ہی ایسا بے غیرت ہے ۔کتے کی۔۔۔‘‘
ماں نے آتے ہی یہ منظر دیکھا تو،جیسے زمین آسمان اوپر تلے ہو گئے ۔وہ ہکا بکا خلاؤں میں معلق ہوکررہ گئی ۔ پھپھو نے اسے بازو سے جھنجھوڑ کر کہا،’’مَریں! ہوش کر اور بتا کیا کرنا ہے اس کا،کہہ اسے کرے اس کے ٹوٹے ہم کہیں گے۔۔۔‘‘ ماں، سوچے سمجھے بغیرپاگلوں کی طرح میرو کی لاش پر ٹوٹ پڑی ۔سر،بازو ،ٹانگیں یوں الگ کردیں،جیسے بکرا کاٹتے ہیں۔۔۔میرو کی ایک ٹانگ کٹ کر بی بی کے سامنے آگئی ۔بی بی بت بنی میرو کے گھٹنے پر بنے گٹے کواب بھی گھورے جارہی تھی۔۔۔ماں ، پھپھوکے پاؤں پڑ گئی ۔۔۔ تب اس کی انا پہلی بارپھپھو کے قدموں میں ڈھیر ہوگئی تھی۔ پھردونوں نے مل کر، بی بی کو مار پیٹ کے، منتیں کر کے ،کم از کم اسے خاموش رہنے پر مجبور کر لیا۔
آج بھی اگر آپ ادھرجائیں توگاؤں کے مرکزی راستے پرایک قبرستان آئے گا۔ راستے سے گزرتے ہوئے اندر ایک اونچی قبر پر مراد شہید کا کتبہ اتنا نمایاں ہو گا کہ آپ کوخوش گوار حیرت ہوگی کہ لوگ کیسے اپنے شہیدوں کو زندہ رکھتے ہیں۔اس سے کچھ آگے موڑ پر، قبرستان کی حدود سے باہر ایک سیاہ قبر کا خاصا نمایاں کتبہ د یکھ کر یقیناً آپ رک جائیں گے جس پر جلی حروف میں’’میرو مسلی مردار‘‘لکھا ہوا ہے۔قبر آپ کو ایک غیرت مند بیٹی کی جرات کی داستان سنائے گی ۔
بی بی یہ تو نہیں جانتی ہوگی کہ انسانی تاریخ میں اربوں کھربوں کتبوں کے نیچے کیا کیا تضاد ات دفن ہیں ۔سنا ہے وہ چپ کا روزہ رکھے جب بھی وہاں سے گزرتی ہے ان کتبوں کو دیکھ کراس کے ہونٹ تیزی سے حرکت کرنے لگتے ہیں ۔کتبوں کے نیچے کی کہانی صرف وہی جانتی ہے ورنہ وقت رواں دواں ہو کر سب کچھ بدل رہا ہے ۔بہرحال جو بھی ہو بی بی کی پاک دامنی کے چرچے ، لمبی تسبیح کی روانی،طویل نمازوں اور لمبے چوڑے وظیفوں کی برکت نے، چودھری بخت جیسے سخت گیر کو اس کے قدموں میں جھکا رکھاہے ۔
وہ گرمیوں کی دوپہر تھی ۔سب سو رہے تھے ۔بی بی پانی پینے اٹھی تو کیا دیکھا کہ میرو گھر کے پچھلے دروازے سے آکر تیزی سے بڑے کمرے میں گھس گیا ہے۔ جہاں بی بی کی چہیتی مرغیاں انڈے دیتی تھیں ۔بی بی کو پہلے ہی میرو پر شک تھا کہ وہ اس کی مرغیوں کے انڈے چراتا ہے۔ بی بی تیز تیزقدموں سے بڑے کمرے کے دروازے پر جا کر رک گئی کیونکہ اس شیطان کی آنت نما کمرے میں کسی کو ڈھونڈنا بہت دشوار تھا ۔کمرے میں دن کے وقت بھی نیم تاریکی رہتی تھی ۔صحن کی جانب کوئی کھڑکی روشن دان نہیں تھا۔اس کمرے میں غیر ضروری چیزوں کے انبار لگے تھے ۔کہیں کلھاڑیاں درانتیاں پڑی تھیں، کہیں کھل اور چوکر کی بوریوں سے ایسی اوٹ بن گئی تھی جیسے کمرے ہوں۔
بی بی انتظار کرتی رہی جب کافی دیر گزر گئی اور میرو باہر نہ آیا توبی بی دبے پاوں اندر داخل ہوئی ۔ذرااندر گئی تو اسے اپنے منگیتر چودھری بخت کی آواز آئی ، وہ غصے میں دانت پیستا، آہستہ آہستہ میرو کی ماں اور بہنوں کے نام لے لے کر گالیاں بک رہا تھا۔۔۔ میرو تیری ماں ۔۔۔میرو تیری بہن ۔۔۔تیری نسل ۔۔۔کسی ایک کو نہیں چھوڑوں گا،تم مسلیو۔۔۔ جب بی بی نے بوریوں سے چنی دیوار کے پیچھے جھانکا تو حیران رہ گئی ۔بوریوں کے پیچھے،مدھم روشنی میں میرو مسلی بکری اور چودھری بخت بکرابنا ہوا تھا۔وہ چکرا گئی ۔ جلدی سے پیچھے ہٹی، چودھری بخت کو زیرِ لب گالیاں بکتی ہوئی باہر آگئی۔اس نے سوچا، پچھلے مہینے پھپھو نے اسے کتنا پیٹا تھا۔ جب وہ اصلی والے بکری بکرے کا کھیل چھت سے چھپ کر دیکھتے ہوئے پکڑی گئی تھی۔یہاں ذلیل بخت وہی کھیل خود بکرا بن کر کھیلتاتھا تواسے کوئی کچھ نہیں کہتا تھا۔وہ بہت دیرخیالوں میں پھپھو سے الجھتی رہی۔ اسے چودھری بخت کے ساتھ ساتھ اس مرادشہید بے غیرت پر بھی غصہ آرہا تھا جو اس سب کا ذمہ دار تھا۔بی بی یوں جا کر اپنے پلنگ پر گری جیسے مر گئی ہو۔یہ سب دیکھ کر آج بی بی کی حالت ایسی ہو رہی تھی جیسے کھلیان میں گندم کاخشک پودا ہوتا ہے۔ ایک طرف وہ ریزہ ریزہ ہو کربھُس بن رہی تھی اور دوسری طرف تازہ دانے کی طرح اس کا جسم بیدار ہورہاتھا۔وہ تڑپتی رہی۔ کبھی اس کا جی چاہتا وہ اونچی آواز میں گالیاں بکے ۔وہ رو کر جی کا غبار ہلکا کرنا چاہتی تھی ،اس نے زورزور سے پلکیں جھپکیں لیکن ایک قطرہ بھی نہ گرا۔وہ کس سے شکایت لگاتی ۔ چودھری بخت تو اسی کام کی وجہ سے قبیلے کی آنکھ کا تارا بن گیا تھا۔اس نے تو مراد شہید کے قتل پر ہونے والے جرگے میں پوری پنچائیت کے سامنے یہ قسم کھائی تھی کہ اگر مسلیوں نے مراد کے قاتل کا نام نہ بتایا تووہ اس کے قتل کا بدلہ مسلیوں کے لڑکوں سے اسی طرح لے گا ۔سب کو بکری بنائے گا تاکہ ان کی اور دشمنوں کی آنکھیں صدیوں تک جھکی رہیں۔اس دن سفید ڈاڑھیوں والے بھی چودھری بخت کی بات سن کرچپ ہو گئے تھے۔کیوں چپ ہوئے تھے؟ شاید یہ ان کی جانب سے رضا مندی کا کوئی اشارہ تھا۔ مسلیوں نے کیسے ہاتھ جوڑ جوڑ کر کہاتھا۔ وہ مرا ہمارے گھروں کے پاس ہے،پَرہم کہاں قتل کر سکتے ہیں۔صدیوں سے یہیں آپ کے قدموں میں ہیں ۔ چودھریوں کا خیال تھا کہ مراد کو کسی نے غیرت کے نام پر قتل کیا ہے،ظاہر ہے وہ مسلیوں میں سے کوئی نہیں ہوسکتا۔لیکن وہ اپنے بھائی پرایسا گھٹیا الزام لگانے کی بجائے اس بات پر زور دے رہے تھے کہ مسلیوں نے دشمنوں سے پیسے لے کرمراد کو شہید کیاہے۔۔۔ جوبھی تھا ۔مراد کی قبر کے کتبے پر جلی حروف میں مراد شہید لکھوادیا گیاتھا۔اس کی قبر کو نمایاں کردیا گیاتھا تاکہ ہر آنے جانے والے پر رعب پڑتا رہے۔ اس سارے تنازعے میں حیرت کی بات یہ تھی کہ مراد کی شہادت پر کسی مسلی کو سزائے موت نہیں دی گئی تھی۔بس! یہ بکروں کو بکری بنانے کاتماشا شروع ہو گیاتھا۔
اس کھیل میں سید،خان اورملک کہاں پیچھے رہنے والے تھے۔مراد کی شہادت کے تھوڑے ہی عرصے بعد مسلیوں کے گھٹنوں پر گٹے پڑنے لگے تھے۔
چودھری بخت اور میرو والے قصے کے بعد بی بی نے جان بوجھ کر کام والی کالی مسلن کو اپنے کافی قریب کر لیاتھا ۔ پتا نہیں وہ چودھری بخت کے بارے میں جاننا چاہتی تھی یا اسے مسلیوں سے ہمدردی ہو گئی تھی۔جو بھی تھا وہ کالی مسلن سے روزانہ گاؤں کے حالات پوچھتی رہتی۔
کالی مسلن دنیا کے ہر کرب کو جگت میں لپیٹ کر مذاق بنا دیتی تھی۔بی بی کا غصہ قہقہے میں ضم ہو کر لطیف طنز بن جاتاتھا۔شاید بی بی اور مسلی اسی سہارے جینے کے جتن کرتے تھے۔کالی مسلن کبھی کہتی: ’’بی بی تیرے منگیتر سے تو ہم سب بہت ڈرتے ہیں۔وہ اکثر نشہ کر کے آتا ہے بہت گالیاں بکتا ہے کہتا ہے۔ تمھیں جو غیرت کی قبض ہوئی ہے نا !یہ میں دورکر کے رہوں گا ۔بی بی جی!ویسے یہ کام ہوا ٹھیک ہی ہے۔اب نا ہمارے لڑکوں نے گھر سے نکلنا چھوڑ ہی دیا ہے۔پہلے تو توبہ کریں۔دیکھو جی !اب میں کیا کہوں۔(پھرہونٹوں پر شرارتی مسکراہت لا کر آنکھ مارتی اور کہتی) بی بی جی! ساڈا تو حق ہی مارا گیاہے۔ہمیں تو پوچھتا ہی کوئی نہیں،بس! منڈوں کی بیماریاں ہی ٹھیک ہورہی ہیں۔‘‘
کالی مسلن کا کوئی اپنا مسئلہ تھا یا وہ صرف چودھریوں کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتی تھی یا اس کا تکیہ کلام تھا ۔وہ ہر بات سے پہلے کہتی ،’’بی بی جی!ویسے یہ کام ہوا ٹھیک ہی ہے۔ جب سے شروع ہوا ہے ہمارے لڑکے نا! اب ذراصاف ستھرے ہو کر رہتے ہیں۔( آنکھ مار کر ) قسمے بی بی جی !اب نا!ان سے چودھریوں والی خوشبوبھی آنے لگی ہے۔‘‘
بی بی کے پاس روزانہ نئی نئی خبریں آتیں ،کبھی پتا چلتا کوئی مسلی گاؤں چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔کبھی کالی مسلن بتاتی کہ فلاں مسلی جو بھاگا تھا۔آج رات چھپ کر بیمارماں کو دیکھنے آیا تھا۔سب نے بہت روکا پر راتوں رات غائب ہوگیا۔ کہتا تھا یہ ذلت برداشت نہیں ہوتی۔بری طرح مار بھی کھاؤ۔۔۔فلمیں بھی بنواؤ ۔۔۔مر۔کبھی بتاتی ،’’ہائے ہائے بی بی جی !انت مچی ہوئی ہے اب دیکھیں نا ساتھ گندی فلمیں لگا کر ویسے ہی گندے کام۔۔۔وہ بھی لڑکوں سے۔توبہ توبہ ۔‘‘بی بی کا جی متلانے لگا تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کیا کالی نے فوراً بات بدل لی۔کالی بات بدلنے میں بہت ماہر تھی جب اس نے ایک بار کہا تھا،’’ بی بی جی !آپ کا چودھری بخت تو میرو کے پیچھے ہی پڑگیا ہے ۔اس پر تو میں نے نظر رکھی ہوئی تھی۔ایک ہی تو سوہنڑامنڈا تھا مسلیوں میں۔‘‘اس نے بی بی کے تیور بدلتے دیکھ کر فوراً ایک کرارا سا لطیفہ سنا کر بی بی کا موڈ ٹھیک کر دیا تھا۔
کالی مسلن ،بی بی کے سامنے ہر بات کھول کر بیان کرتی لیکن اس انداز سے کہ بی بی کی طبیعت بوجھل نہ ہونے پائے۔اس کی حس مزاح بلا کی تیز تھی شاید وہ موت کا کرب بھی ہنسی مذاق میں ٹال سکتی تھی۔ بی بی اس کی باتوں سے خوب محظوظ ہونے لگی تھی۔یہ مسئلہ جس نے بی بی کو کئی دن تک جان لیوا حد تک پریشان رکھا تھا ،اب کالی کی شوخی کی وجہ سے اتنا سنگین نہیں رہا تھا۔اب بی بی، کالی سے پوچھتی ،’’سنا کالی !کیا ہورہا ہے آج کل تیرے گاؤں میں ۔‘‘ کالی،ہاتھ سے گندا اشارہ کر کے کہتی ،’’ہو تو وہی رہا ہے لیکن بی بی جی! ویسے یہ کام ہوا ٹھیک ہی ہے۔( آنکھ مار کر )بی بی جی!ہمارے لڑکے اب بالکل سیدھے تیر ہو گئے ہیں۔ پہلے تو یہ سینہ چوڑا کیے،ہمارے کرداروں کو کتوں کی طرح سونگھتے پھرتے تھے۔ اس سے ملو تو وہ خفا ،اس سے بات کرو تو یہ والا ناراض۔اب تو نہ پوچھیں جی!ان کی آنکھیں ایسی نیچی ہوئی ہیں کہ ہم کسی کونظر ہی نہیں آتے ۔ویسے میرے تو مزے ہو گئے بی بی جی! ویسے ایک بات کہوں ،یہ قوم ہے ڈنڈے کی ۔بس!ہو ناڈنڈا،لگی ہوں مرچیں۔۔۔ہائے ہائے (پھر فوجی سیلوٹ مار کر )بندہ ایسے چلے نا اکڑ کراور کہے۔ میں ڈرتا ورتا نہیں ہوں کسی سے۔۔۔ ‘‘ بی بی اس کی باتیں سن کرہلکی پھلکی ہو جاتی۔
ایک دن تو بی بی ہنس ہنس کے دُہری ہو گئی ۔جب کالی نے یہ انکشاف کیا کہ ،’’بی بی جی ! ہمارے لڑکوں کی تواب چال بھی بدل گئی ہے۔‘‘کالی ایک ایک کی نقل اتار تی رہی۔’’ فلانا ہے نابی بی جی!وہ پہلے یوں چلتا تھا،متھن کا پتر۔اب توچلتے ہوئے ایسے ٹھمکا سا لگا دیتا ہے۔۔۔بی بی جی !وہ ہے نا رشیداں کا بیٹا۔پہلے سنجے دت کی طرح،یوں یوں کر کے چلتاتھا اور اس طرح آنکھیں ٹیڑھی کر کے لڑکیوں کو دیکھتا تھا۔اب توگھٹنے ٹیک ٹیک کے۔ایسے جھک کے گزرجاتا ہے۔بی بی جی! ویسے یہ کام ہوا ٹھیک ہی ہے۔ چودھری بخت نے واقعی ان کی بیماری ٹھیک کردی ہے۔‘‘ بی بی نے چودھری بخت کا نام سن کر نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’چھوڑ اس ذلیل کو تُو پھر بتا پہلے کیسے چلتا تھا،وہ سنجے دت۔‘‘کالی پھر تیار ہو گئی ،’’ادھر دیکھیں ایسے۔۔۔‘‘اور دونوں دیر تک ہنستی رہیں۔پھر پھپھو کی ایک آواز نے محفل درہم برہم کردی۔
میرو مسلی اپنی سانولی رنگت ،چھریرے بدن اوراسی نسبت کے ناک نقشے کی وجہ سے باقی لڑکوں سے زیادہ خوبصورت تھا ۔دوسری طرف گاؤں میں جو طاقت کی نئی تقسیم، مراد شہید کے بعد قائم ہوئی تھی۔ اس کے حساب سے پورے گاؤں میں حسن پر سب سے زیادہ حق چودھری بخت کاہی بنتا تھا۔سو وہ اس حق سے مستفید بھی ہو رہا تھا۔لیکن میرو تشدد اور ذلت سے بہت تنگ آچکاتھا۔ اس نے کئی بار بھاگنے کا سوچا مگر ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا ۔وہ اسے سمجھا بجھا کر روک ہی لیتے تھے۔جس رات اسے باڑے سے گھر جاتے ہوئے تین لڑکے کھائی میں لے گئے تھے۔اس رات وہ گھر نہیں گیاتھا۔خبر مشہور ہو گئی کہ میرو گاؤں چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ اس دن چودھری بخت کی حالت دیدنی تھی ۔جیسے اس کی منکوحہ بھاگ گئی ہو۔ وہ بپھرے ہوئے ہاتھی کی طرح ہر چیز روندتا چلا جارہا تھا۔