ماہ تمام

نہ جانے کیوں
مجھے اکثر گمان ہوتا ہے
مہ تمام فقط دیکھتا نہیں ہے ہمیں
وہ جبر و قید مسلسل پہ اک مشقت کی
ہزاروں سال سے اس بے کراں مسافت کی
بساط وقت کی
اک داستاں سناتا ہے
سمجھ سکیں تو
بہت کچھ ہمیں بتاتا ہے