لگا ہے آئینہ نظر چرانے ہم کو دیکھ کر
لگا ہے آئینہ نظر چرانے ہم کو دیکھ کر
نظر اسے بھی کچھ لگا ہے آنے ہم کو دیکھ کر
وہ کیا تھی بات جو حبیب کر رہا حبیب سے
لگا جو بات اور وہ بنانے ہم کو دیکھ کر
وہ شمس جو نکلتا صحن سے تھا لے ہماری تاب
لگا ہے مینڈھ کا دیا بجھانے ہم کو دیکھ کر
ہماری پانے کو جھلک گزاری پوری شب ادھر
لگا گلی کا موڑ وہ بھلانے ہم کو دیکھ کر
تھا تھاما ہم نے ہر قدم پہ ننھے سے جو قدموں کو
چھڑا کے ہاتھ اب لگا ہے جانے ہم کو دیکھ کر
ہمارے بن تھے میکدے وہ بے سرور بے خمار
کہ دیکھو پھر نشہ لگا ہے چھانے ہم کو دیکھ کر