لب بام

تمہیں تو آئی ہو سج دھج کے جلوہ گر ہونے
تمہیں کھڑی ہو لب بام دیکھتا ہوں میں
کچھ اور دیر ذرا تم وہیں کھڑی رہنا
نشاط دید کا ہنگام دیکھتا ہوں میں


تمہارا حسن ہے گویا نکھار پھولوں کا
ہر اک ادا پہ تمہاری نثار جان و دل
وفا کے نام پہ مرنا بھی مجھ کو آتا ہے
سہارا دے دو مجھے تم کہ دور ہے منزل


تمہیں یہ کیسے میں سمجھاؤں اے صبا انداز
کہ میں تمہاری اداؤں پہ جان دیتا ہوں
پہنچ ہی جاؤں گا آخر تمہارے آنچل تک
قسم تمہاری تمہیں میں زبان دیتا ہوں


یہ جانتا ہوں کہ ہیں خار رہ گزاروں میں
زمانہ آیا ہے ہم فطرت ستم بن کر
ہر اک ستم کو میں سہہ لوں گا کاش تم کچھ دیر
وہیں کھڑی رہو گلدستۂ کرم بن کر


تمہاری آنکھوں میں ہو انتظار کا کاجل
تو میرے سامنے راہوں کے پیچ و خم کیا ہیں
تمہارے لطف کی شمعیں اگر فروزاں ہوں
تو تیرگیٔ ستم صرصر الم کیا ہیں


فراق و غم کے اندھیروں میں لڑکھڑاتے ہوئے
تمہارے پاس میں بالائے بام آؤں گا
بنا کے نظم کہن کو غبار راہ گزر
لیے ہوئے میں نئی صبح و شام آؤں گا