کیوں ہمیں موت کے پیغام دئے جاتے ہیں

کیوں ہمیں موت کے پیغام دئے جاتے ہیں
یہ سزا کم تو نہیں ہے کے جیے جاتے ہیں


ہم ہیں ایک شمع مگر دیکھ کے بجھتے بجھتے
روشنی کتنے اندھیروں کو دئے جاتے ہیں


نشہ دونوں میں ہے ساقی مجھے غم دے کے شراب
مے بھی پی جاتی ہے آنسو بھی پئے جاتے ہیں


ان کے قدموں پہ نہ رکھ سر کے ہے یہ بے ادبی
پائے نازک تو سر آنکھوں پہ لئے جاتے ہیں


تجھ کو برسوں سے ہے کیوں ترک تعلق کا خیال
فیصلے وہ ہیں جو پل بھر میں لئے جاتے ہیں


اپنی تاریخ‌‌ محبت کے وہی ہیں سقراط
ہنس کے ہر سانس پہ جو زہر پئے جاتے ہیں


آبگینوں کی طرح دل ہیں غریبوں کے شمیمؔ
ٹوٹ جاتے ہیں کبھی توڑ دئے جاتے ہیں