کیوں اندھیروں میں رہیں رات بسر ہونے تک
کیوں اندھیروں میں رہیں رات بسر ہونے تک
خود ہی خورشید نہ بن جائیں سحر ہونے تک
کتنا اچھا ہو کہ اس بار مریض شب غم
اچھا ہو جائے مسیحا کو خبر ہونے تک
کتنی ہی بار خیالوں میں ترے پاس گئے
ہم سفر کرتے رہے وقت سفر ہونے تک
ہے یہ تشہیر محبت تو کہیں بعد کی چیز
آپ مل سکتے ہیں دنیا کو خبر ہونے تک
داغ دل اپنی ہی سوزش سے بنا ہے خورشید
اور کیا گزرے گی قطرے پہ گہر ہونے تک
اے دل وعدہ طلب پھر کوئی تجویز وفا
اک نظر اور بھی تائید نظر ہونے تک
تیرے ساتھ اپنے بھی جینے کی دعائیں مانگیں
ہم سفر ساتھ رہے ختم سفر ہونے تک
حد بھی ہوتی ہے کوئی تشنہ لبی کی نوریؔ
خود ہی پی لیتے ہیں ساقی کی نظر ہونے تک