کیا کروں گا میں بھلا کانچ کا یہ گھر لے کر
کیا کروں گا میں بھلا کانچ کا یہ گھر لے کر
لوگ آ جائیں گے پھر ہاتھ میں پتھر لے کر
ذہن ماؤف بدن چور ہے دل آزردہ
آؤ سو جائیں سرہانے کوئی پتھر لے کر
نام چھپتا تھا جلی حرفوں میں کل تک جس کا
آج بیٹھا ہے وہ فٹ پاتھ پہ بستر لے کر
جب بھی حالات کے سورج کی تپش تیز ہوئی
اوڑھ لی میں نے تری یاد کی چادر لے کر
زینت شہر ہیں ممتازؔ یہ اونچے ایوان
ہم کہاں جائیں بھلا پھوس کا چھپر لے کر