جس قدر زندگی کے پاس رہا
جس قدر زندگی کے پاس رہا
آدمی اور بھی اداس رہا
راستوں میں تو اتنا خوف نہ تھا
جس قدر منزلوں کے پاس رہا
جب بھی سورج ملا ملا تنہا
چاند تاروں کے پاس پاس رہا
کتنے پہنائے آگہی نے لباس
آدمی پھر بھی بے لباس رہا
خود سے بیگانہ ہی رہا ناداں
اور غیروں سے روشناس رہا