شاہ حسین نہری کے تمام مواد

10 غزل (Ghazal)

    بدن دریدہ و بے برگ و بار ہونا بھی

    بدن دریدہ و بے برگ و بار ہونا بھی مرے ہی واسطے پھر شرمسار ہونا بھی نظر اٹھاؤں میں جب جب بھی دشت شب دیکھوں عجیب شے ہے سحر کا شکار ہونا بھی طریق سارے گماں کے قدم سے لپٹے ہیں کہ میرے سر ہے حقیقت نثار ہونا بھی مرے ہی نام پہ منزل رسی یہ ٹھہری ہے مرے لیے ہی مگر پا فگار ہونا بھی میں اس ...

    مزید پڑھیے

    ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو

    ناگزیر رشتگی سا ہے تو ہو ورنہ مجھ سے کیا علاقہ ہے تو ہو وہ مجھے دیکھے نہ میں پاؤں اسے اب کوئی میرا شناسا ہے تو ہو پر کشش ہیں راستے کے پیچ و خم چین پانے کا ٹھکانا ہے تو ہو سامنے ہیں آسمانی وسعتیں بے زمینی کا زمانہ ہے تو ہو چہرۂ احساس پر ہے تازگی آدمی ہونا پرانا ہے تو ہو نازکی اک ...

    مزید پڑھیے

    بیاں اپنا دکھ اب کیا جائے نا

    بیاں اپنا دکھ اب کیا جائے نا بیاں کے بنا بھی جیا جائے نا مسرت ملے دیکھنے کی اسے تصور بھی جس کا کیا جائے نا کہاں ہے تو اے منتظر مرگ من کہ اب مجھ سے تجھ بن جیا جائے نا بہت زخم کھائے مری آنکھ نے دریدہ یہ منظر سیا جائے نا قدم چومتی ہے زمیں میری شاہؔ مگر مجھ سے بدلہ دیا جائے نا

    مزید پڑھیے

    بھرے پرے سے مکاں میں بھی شاہؔ تنہا ہے

    بھرے پرے سے مکاں میں بھی شاہؔ تنہا ہے ردائے شب کے کنارے پہ ایک تارا ہے بس ایک لمحہ تھا حائل تجھے بھلانے میں یہ کس مقام پہ تیرا خیال آیا ہے تمام گرد ہے چہرہ تھکی تھکی آنکھیں اداسیوں کا یہ بادل بہت گھنیرا ہے شب سیہ میں ہے تیری ہی یاد کا لپکا نگاہ ٹھوکریں کھاتی ہے گھپ اندھیرا ...

    مزید پڑھیے

    یاں کے ہونے کو مثالوں کی زمیں چاہیے ہے

    یاں کے ہونے کو مثالوں کی زمیں چاہیے ہے اس کی ہستی کو یہ تمثیل نہیں چاہیے ہے ہر نشاں اس کا ہے دل میں بھی ہے جلوہ اس کا ظاہر دیدہ کی تسکیں بھی کہیں چاہیے ہے جو یہاں بھی ہے وہاں بھی ہے وہی ہے اچھا کیوں کہیں اس کو بھی اچھا جو یہیں چاہے ہے یادیں آباد زمانوں کی ہیں آباد اس میں ہے خرابہ ...

    مزید پڑھیے

تمام