کدورت سے غبار آلودہ آئینہ نہیں رہتا
کدورت سے غبار آلودہ آئینہ نہیں رہتا
مرے چہرے پہ کوئی دوسرا چہرہ نہیں رہتا
غموں کی دھوپ سے چہرے وہاں مرجھائے رہتے ہیں
تری زلف معنبر کا جہاں سایہ نہیں رہتا
کوئی منظر بھی ہو افسردہ افسردہ سا لگتا ہے
تصور میں کسی کا جب رخ زیبا نہیں رہتا
در و دیوار سے یہ کیسی ویرانی ٹپکتی ہے
تری بستی میں دیوانے کا اب چرچا نہیں رہتا
ہلاک کاروبار غم بھی رہ کر اے نظرؔ خوش ہوں
لبوں پر گردش تقدیر کا شکوہ نہیں رہتا