کوئی تو شکل محبت میں سازگار آئے
کوئی تو شکل محبت میں سازگار آئے
ہنسی نہیں ہے تو رونے سے ہی قرار آئے
ہے ایک نعمت عظمیٰ غم محبت بھی
مگر یہ شرط کہ انساں کو سازگار آئے
جنون دشت پسندی بتائے دیتا ہے
گزارنی تھی جو گھر میں وہ ہم گزار آئے
گزارنی ہے مجھے عمر تیرے قدموں میں
مجھے نہ کیوں ترے وعدوں پہ اعتبار آئے
تمہاری بزم سے آ کر وہی خیال رہا
ہم ایک بار گئے تم ہزار بار آئے
نگاہ دوست کوئی اور بات ہے ورنہ
تو بے قرار کرے اور مجھے قرار آئے
ہے مطمئن بھی تو کس کس امید و بیم کے ساتھ
وہ نا مراد جسے لطف انتظار آئے
بتا گئی ہے جو مجھ کو وہ بے قرار نگاہ
نہ کہہ سکوں گا اگر آج بھی قرار آئے
یہ امتیاز ہے غالبؔ کے بعد عالیؔ کا
کہ جس پہ آپ مرے ہیں اسے بھی مار آئے