کوئی تو بات ہے یا رب ہوائے کوے جاناں میں

کوئی تو بات ہے یا رب ہوائے کوے جاناں میں
اسیروں کو ذرا تسکین ہو جاتی ہے زنداں میں


یہاں کی خاک خون بے گنہ کا رنگ لاتی ہے
ذرا دامن بچا کر آئیے گور غریباں میں


یہ قد بوٹا سا گل سے گال آنکھیں نرگس شہلا
جوانی تم پہ کیا آئی بہار آئی گلستاں میں


زمانہ کی دو رنگی دیکھ کر جلتا ہے جی کیسا
کہ شبنم رو رہی ہے پھول ہنستے ہیں گلستاں میں


جو دیکھو غور سے تو چار دن کی زندگی کیا ہے
فقط ہیں چند سانسیں اور کیا رکھا ہے انساں میں


نہ روتا ہے کسی کے حال پر کوئی نہ ہنستا ہے
بڑے آرام سے سوتے ہیں سب گور غریباں میں


ستم ایجاد کس کس کو ترے درباں جگائیں گے
مری تقدیر بھی سوتی ہے میرے ساتھ زنداں میں


کریں گے سجدے جھک جھک کر بتوں کے پوجنے والے
صنم خانے کا لطف آئے گا صفدرؔ میرے دیواں میں