کوئی شکوہ تو زیر لب ہوگا

کوئی شکوہ تو زیر لب ہوگا
کچھ خموشی کا بھی سبب ہوگا


میں بھی ہوں بزم میں رقیب بھی ہے
آخری فیصلہ تو اب ہوگا


آئیں مے خانہ میں کبھی واعظ
حور بھی ہوگی اور سب ہوگا


بول اے میرے دل کی تاریکی
تیرا سورج طلوع کب ہوگا


سنتا ہوگا صدائیں اس دل کی
شام تنہائی میں وہ جب ہوگا


کب چھٹیں گی یہ بدلیاں غم کی
صاف مطلع یہ جوشؔ کب ہوگا