کوئی مجھ سے جدا ہوا ہے ابھی

کوئی مجھ سے جدا ہوا ہے ابھی
زندگی ایک سانحا ہے ابھی


نہیں موقع یہ پرسش غم کا
دیکھیے دل دکھا ہوا ہے ابھی


کل گزر جائے دل پہ کیا معلوم
عشق سادہ سا واقعہ ہے ابھی


بات پہنچی ہے اک نظر میں کہاں
ہم تو سمجھے تھے ابتدا ہے ابھی


کتنے نزدیک آ گئے ہیں وہ
کس قدر ان سے فاصلہ ہے ابھی


ساری باتیں یہ خواب کی سی ہیں
زندگی دور کی صدا ہے ابھی


دار پر کھینچتے ہیں اخترؔ کو
جرم یہ ہے کہ جی رہا ہے ابھی