کوئی مہتاب نہیں کوئی ستارا بھی نہیں
کوئی مہتاب نہیں کوئی ستارا بھی نہیں
اے خدا بحر محبت کا کنارا بھی نہیں
ہاں وہی شخص کہ تھا لفظ جدائی سے خفا
دم رخصت مجھے ظالم نے پکارا بھی نہیں
کیا سکھائے گا وہ آداب محبت مجھ کو
راہ الفت میں جسے رنج گوارا بھی نہیں
شب ہجراں میں لیے بیٹھی ہوں اشکوں کے چراغ
کیا کروں اس کے سوا تو کوئی چارا بھی نہیں
میں نے توڑا ہے تعلق تو فقط اتنی ہے بات
مجھ میں اب درد و الم سہنے کا یارا بھی نہیں
اس کی پر شوق نگاہوں سے سجا کرتی تھی
وہ گیا ہے تو کبھی خود کو سنوارا بھی نہیں
غم دوراں نے شفقؔ ظلم کیا ہے ایسا
بے بسی میں غم جاناں کا سہارا بھی نہیں