کوئی گر اشک بھی پونچھے تو غم ہلکا نہیں ہوتا
کوئی گر اشک بھی پونچھے تو غم ہلکا نہیں ہوتا
گھڑی آگے بڑھا دینے سے دن چھوٹا نہیں ہوتا
پلاتی ہیں کسے اب دودھ مائیں با وضو ہو کر
تبھی تو ہم میں اب ٹیپو کوئی پیدا نہیں ہوتا
گناہوں کی بھیانک برف باری ہم کو کھا جاتی
خدا کے رحم کا سورج اگر چمکا نہیں ہوتا
کہیں بھی جا کے بس جائیں وطن کی یاد آتی ہے
کسی سوتیلی ماں سے مطمئن بیٹا نہیں ہوتا
تری یادوں کے دریا میں ہر اک شب یہ نہاتی ہیں
بدن غزلوں کا میری ایسے ہی گورا نہیں ہوتا
نبیلؔ اخلاص بس دیہات کے لوگوں کا شیوہ ہے
کسی بھی شہر کی مٹی میں یہ پودا نہیں ہوتا