جیون کے کئی راز بتاتا ہے جزیرہ

جیون کے کئی راز بتاتا ہے جزیرہ
شاعر کو نئی راہ سجھاتا ہے جزیرہ


کیا دور ہے خود موج لگاتی ہے یہ تہمت
دنیا میں بہت شور مچاتا ہے جزیرہ


اللہ کی تخلیق کا انداز تو دیکھو
وہ آب کی کھیتی میں اگاتا ہے جزیرہ


جیون کا سفر دکھ کے سمندر میں ہے اکثر
میلوں میں کبھی خوشیوں کا آتا ہے جزیرہ


ہو نرغۂ باطل میں کھڑا جیسے مجاہد
موجوں میں یوں ہی سر کو اٹھاتا ہے جزیرہ


ہر شب تری یادوں کے سمندر میں اتر کر
اک پارۂ دل خود کو بناتا ہے جزیرہ


بیٹھا ہے حسیں کوئی سمندر کے کنارے
اٹھ اٹھ کے جسے دیکھتا جاتا ہے جزیرہ


محبوب سے جب پوچھتا ہوں عشق کا انجام
انگلی کے اشارے سے دکھاتا ہے جزیرہ


اے میرے نبیلؔ آپ کے جیسا ہی سدا سے
تنہائی کا غم روز اٹھاتا ہے جزیرہ