جب یاد تری آتی ہے تھمتے نہیں آنسو
جب یاد تری آتی ہے تھمتے نہیں آنسو
پھر رات بھی ہو جائے تو سوتے نہیں آنسو
جب خوف خدا سے یہ نکل جائیں تو موتی
جز آب کے کچھ اور تو ہوتے نہیں آنسو
رخسار کے رستہ پہ ہی چلتے ہیں یہ سیدھے
انساں کی طرح رہ سے بھٹکتے نہیں آنسو
تعظیم میں پلکوں سے اتر جاتے ہیں نیچے
غم آئیں تو بیٹھے ہوئے رہتے نہیں آنسو
جب بھی میں بلاتا ہوں چلے آتے ہیں ملنے
تیری طرح رسوائی سے ڈرتے نہیں آنسو
کاجل کے بکھرنے سے بنا اور حسیں وہ
حالانکہ کسی آنکھ میں جچتے نہیں آنسو
نادان نبیلؔ ان سے تو جل جائے گا کاغذ
کاغذ کے کسی صفحے پہ لکھتے نہیں آنسو