کوئی بتلائے کہ یہ طرفہ تماشا کیوں ہے
کوئی بتلائے کہ یہ طرفہ تماشا کیوں ہے
آدمی بھیڑ میں رہتے ہوئے تنہا کیوں ہے
پاؤں پھیلائے ہوئے غم کا اندھیرا کیوں ہے
آ گئی صبح تمنا تو پھر ایسا کیوں ہے
میں تو اک ذرۂ ناچیز ہوں اور کچھ بھی نہیں
وہ جو سورج ہے مرے نام سے جلتا کیوں ہے
تجھ کو نسبت ہے اگر نام براہیم سے کچھ
آگ کو پھول سمجھ آگ سے ڈرتا کیوں ہے
کون سا عہد ہے جس عہد میں ہم جیتے ہیں
دشت تو دشت ہے دریا یہاں پیاسا کیوں ہے
پی کے بہکے گا تو رسوائی محفل ہوگی
وہ جو کم ظرف ہے میخانے میں آیا کیوں ہے
کوئی آسیب ہے یا صرف نگاہوں کا فریب
ایک سایہ مجھے ہر سو نظر آتا کیوں ہے
یاد کس کی مہ و خورشید لیے آئی ہے
شب تاریک میں آج اتنا اجالا کیوں ہے
بد حواسی کا یہ عالم کبھی پہلے تو نہ تھا
حشر سے پہلے ہی یہ حشر سا برپا کیوں ہے