کوئی بہار کی خاطر کوئی خزاں کے لیے

کوئی بہار کی خاطر کوئی خزاں کے لیے
بس ایک میں ہی رہا صرف گلستاں کے لیے


الٰہی مجھ سے نظر چھین لے کہ اہل نظر
تمام عمر تڑپتے ہیں رازداں کے لیے


مسرتیں جو ملیں تیرے لطف پیہم سے
مچل رہی ہیں کسی جور ناگہاں کے لیے


مجھے ہیں خار سے کچھ خاص نسبتیں کہ یہ گل
بہار میں نہ کھلا رونق خزاں کے لیے


ہمیں ان اہل سخن میں نہ کر شمار کہ یہ
فغاں بھی کرتے ہیں خوش وقتئ فغاں کے لیے


کریں نہ ذکر تمہارا تو کیا کریں کہ ہمیں
کچھ اور مل نہ سکا اپنی داستاں کے لیے


ہمارے دیس میں ایران و نجد سے استاد
بلائے جاتے ہیں تعلیم عاشقاں کے لیے


ہمارے شہر میں فن کے اجارہ داروں نے
کچل رکھا ہے دلوں کو فقط زباں کے لیے


ہم اپنے دیس اور اپنے ہی شہر میں عالیؔ
گدا گری پہ ہیں مجبور سوز جاں کے لیے