کوڑھی کی مُٹھی میں سُور کی ہڈی
سیٹھ حبیب اصولوں کے سختی سے پابند تھے اور بہت محتاط آدمی تھے۔ مثلاً ان کا ایک اصول یہ تھا کہ وہ صبح چار بج کر بیس منٹ پر بیدار ہوتے تھے۔ اب خواہ کچھ بھی ہو لیکن وہ اسی وقت بستر سے اٹھ جانا ہی پسند کرتے تھے۔ یا ان کا یہ اصول تھا کہ کوئی بھی شخص بغیر ان کی اجازت اوراطلاع کے گھر سے باہر نہ جائے۔ اس سخت اصول کی پابندی کرنے میں ان کے گھر کے چھوٹے افراد کو ہمیشہ اذیت ہوتی تھی۔ اسی سلسلہ میں ایک لطیفہ بھی ہوا تھا۔
ویسے مزاجاً سیٹھ حبیب کا کوئی مزاج نہ تھا۔ ہنسنے پر آتے تو انتہائی مہمل باتو ں پر گھنٹوں سوچ سوچ کر ہنستے رہتے اور ہنسانے پر آتے تو انتہائی نامناسب موقعوں پر اکثر لچر باتیں کہہ جاتے۔ یہی وجہ تھی کہ بیشتر حضرات ان کے بارے میں غلط ہی اندازہ لگاتے تھے۔ لیکن انہیں ’عوام‘ کی غلط فہمیوں سے واقعی کچھ واسطہ نہ تھا۔ وہ اس پر فخر بھی کرتے تھے کہ وہ عام آدمی نہیں ہیں یا مثلاً کھلی ہوئی کتاب نہیں ہیں جسے ہر کوئی صفحہ الٹ کر پڑھ لے یا وہ ندی والی مثال کہ بہتی ندی ہے جو چاہے منھ لگادے۔ کچھ لوگ انہیں شریف، انتہائی منکسر المزاج اور خدا ترس سمجھتے تھے تو کچھ لوگ انہیں بہت کائیاں، گھننا اور چپا جانتے تھے۔
اکثر لوگ یہ کہتے سنائی دیے کہ سیٹھ حبیب دراصل خود پسند اورانتہائی چالاک قسم کے خود غرض ہیں۔ غرض طرح طرح کی باتیں ان کے بارے میں سنی جاسکتی تھیں اور ان سب کی وجہ دراصل ان کا چہرہ اور ان کی آنکھیں تھیں۔
آپ نے شاید ابن صفی کے کردار، جیرالڈ شاستری، کے بارے میں پڑھا ہو جس کی آنکھیں بہت تانباک روشن اور زندہ تھیں اور چہرہ مردوں کی طرح بے حس رہتا تھا۔ سیٹھ حبیب اس کے بالکل برعکس تھے۔ یعنی ان کا چہرہ اکثر زندہ ہوجاتا یا اس پر غم، خوشی، فکر اور دہشت کے آثار فوراً نمایاں ہوجاتے لیکن ہر حال میں ان کی آنکھیں بالکل سپاٹ رہتیں۔ کوئی تاثر نہیں ، کوئی جذبہ نہیں۔ جیسے شیشے کی مردہ آنکھیں۔ بالکل خالی ۔۔۔ ہمیشہ ویران رہنے والی۔۔۔ سپاٹ۔۔۔ بے حس ، بوجھل اور دھند لی،دھندلی سی۔ جسے مشکل سے اٹھاکر وہ کہیں چپکا دیتے۔
خیر تو وہ لطیفہ یوں ہوا کہ ایک دن ان کا چھوٹا لڑکا بغیر اجازت اور اطلاع کے گھر سے غائب ہوگیا۔ صبح سے دوپہر۔۔۔ دوپہر سے شام۔۔۔ سارے گھر میں ہیجان تھا اور سیٹھ حبیب اپنے کمرہ میں ٹہل رہے تھے۔ کسی فکر یا اندیشہ سے نہیں بلکہ اس لیے کہ بغیر اجازت یا اطلاع وہ لڑکا غائب کیوں ہوا، رات ہوتے ہی وہ لڑکا ایک تھیلا لٹکائے گھر میں داخل ہوا اور سیٹھ حبیب کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ چند دوستوں کے ساتھ وہ مچھلی کے شکار پر چلا گیا تھا۔ سیٹھ حبیب نے پہلے مچھلی کا تھیلا اس کے ہاتھ سے لے کر زمین پر رکھا۔ پھر دونوں ہاتھ سے لڑکے کو اٹھاکر دیوار پر پھینک دیا۔۔۔ پھر اطمینان سے تھیلے میں سے مچھلی نکال کر دیکھا اور ہونٹوں پہ مسکراہٹ لے کر خود ہی اسے باورچی خانہ میں پہنچا دیا۔
چونکہ ان کی اصول پسندی اور تنہا پسندی کی وجہ سے ان کا کبھی کوئی مستقل دوست نہیں بن سکا تھا۔ اس لئے وہ بیشتر گھر پر ہی رہتے تھے۔ اللہ کا دیا سب کچھ تھا اس لئے انہوں نے پرندے اورجانور پال رکھے تھے۔ ایک پنجرے میں لعل، دوسرے میں پہاڑی مینا، تیسرے میں اچھے قسم کا طوطا جو ان کی حسبِ منشا اپنا سبق بھی یاد کرچکے تھے اور صبح صبح ان سب سے باری باری گفتگو کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ (اس کے بعد وہ گھر کے ہر فرد سے باری باری مخاطب ہوتے تھے) ایک کمرہ کے ایک حصہ میں چند جمنا پاری بکریاں۔ ایک میں ایک خوبصورت فربہ سفید بھیڑ اور ڈربوں میں سفید خرگوش اور مرغیاں بھی ان کی روز مرہ کی مشغولیات کے لئے کافی تھیں۔
بس ان کے گھر میں کمی تھی تو ایک کتے کی۔۔۔ جس کا نہ صرف ان کو بلکہ ان کے گھر والوں کو شدید قلق تھا اور اکثر و بیشتر دبی آواز میں وہ حسرت سے اس کا تذکرہ کرتے رہتے تھے جس کی بھنک ان کے کانوں تک پہنچتی تو وہ کلیجہ مسوس کر رہ جاتے اور چہرہ پر فکر و تردد کے آثار ابھر آتے۔ پھر سپاٹ آنکھوں کو اٹھاکر دیوار سے چپکا دیتے۔
یہاں بھی معاملہ دراصل ان کی اصول پرستی کا تھا۔ ورنہ کیا کتے نہ ملتے۔ ایک سے ایک بڑھیا، فربہ اور خوبصورت پلے۔ خود ان کے بچے ہر سال کارتک کے اواخر تک گھر میں اٹھالاتے اور ان سے چھپا کر دودھ چاول اور دیگر اشائے خورد و نوش سے اس کی ضیافت کرتے۔ لیکن برا ہو ان پلوں کی کم ظرفی اور ناقدر شناسی کا کہ یاتو وہ رسی تڑاکے باہر نکل جاتے یا اپنی مکروہ آواز سیٹھ حبیب کو سنا دیتے اور جبراً باہر پھنکوادیئے جاتے ۔ اس لئے کہ سیٹھ حبیب کا ارادہ اور فیصلہ تھا کہ کتا اگر رہے تو اعلیٰ نسل و ذات کا۔ ورنہ نہیں۔۔۔ ان کا خیال تھا کہ یہ لعل خالص راجستھانی نسل کے ہیں اور مینا لداغ یا لیہ کی ترائی کی کسی اعلیٰ نسل سے ہے اور طوطا افریقہ کے کسی اعلیٰ خاندان کا نہ سہی تو پرتاب گڑھ کے کسی راجہ کے باغ کا ضرور ہے۔ بالکل یہی خیال بکریوں اوربھیڑ، یا خرگوش اور مرغیوں کے بارے میں بھی تھا۔ اور واقعی اس سلسلہ میں انہوں نے نہ صرف خاصے دن صبر کیا تھا اور اپنی خواہش کو دبائے رکھا تھا بلکہ تحقیقات بھی کی تھیں۔ جب یہ یقین ہوگیا کہ بکریاں واقعی جمنا پاری ہیں اور مرغیاں گجریا فارم میں ان کے لئے بڑے اہتمام اور احتیاط سے برآمد کی گئی ہیں تب ہی انھیں گھر میں داخل کیا گیا تھا۔۔۔ لیکن بچے یا نوجوان بچیاں اس راز اور احتیاط کو کیا سمجھتے۔ انہیں تو ایک کتا چاہئے تھا جو ان موجودہ افراد سے ذرا مختلف عادات و اطوار کا ہو۔ شکل و صورت اور آواز سے بھی منفرد ہوتا کہ برسوں کی یکسانیت ٹوٹے اور ذرا نیا مشغلہ ہاتھ آئے۔
ویسے تو سیٹھ حبیب بہت دن سے تلاش میں تگ و دو کر رہے تھے اور خود بھی فکر مند تھے لیکن جب بچوں کا ہڑکنا نہ دیکھا گیا تو انہوں نے اپنے دور دراز کے احباب سے اس سلسلہ میں خط وکتاب بھی شروع کردی۔ اچانک ہی ان کے کسی دوست نے انہیں اطلاع دی کہ چونکہ وہ خود بھی کتوں کی ذات کے سلسلہ میں خاصے محتاط رہے ہیں اس لئے بڑی مشکل سے انہوں نے ایک حاملہ کتیا حاصل کی تھی جس کے بچے پیدا ہوچکے ہیں۔ اگر سیٹھ حبیب ان میں سے کسی کو پسند کریں تو آکر لے جائیں۔ چونکہ سیٹھ حبیب کو اپنے اس دوست کی مہارت اور احتیاط کا یقین تھا اس لئے وہ گھر والوں کے اصرار پر تیار ہوگئے۔
جب اپنے دوست کے یہاں تھکے تھکائے پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کے آنے میں تاخیر ہونے کی وجہ سے زیادہ خوبصورت اور فربہ پلے دوسرے محتاط احباب چن لے گئے۔ اور اب صرف ایک نحیف اور لاغر کتیا بچی ہے جو اتنی کمزور ہے کہ اس کے بچنے اور پل جانے کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ پھر بھی وہ اسے ساتھ لے آئے ۔ پہلے تو گھر والوں نے خصوصاً بچوں نے اس میں کوئی دلچسپی نہ لی بلکہ کراہیت کا اظہار کیا لیکن سیٹھ حبیب کے یقین دلانے پر کہ ایسی اصیل نسل کی کتیا بھی ناممکن ہے انہوں نے ضرور شکر ادا کیا۔۔۔ لیکن وہ توجہ جس کی سیٹھ حبیب کو امید تھی گھر والوں سے اس کتیا کو نہ ملی تو انہوں نے اس کی ساری ذمہ داری بھی خود ہی لے لی۔ چنانچہ جانوروں کے ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کے بعد کتوں کے اسپیشلسٹ کو دکھایا گیا اور اس نے بھی یہ تصدیق کی کہ ہے تو اصیل لیکن۔۔۔ لیکن داخت پرداخت پر خاص توجہ دینی پڑے گی، اس کے علاج کے سلسلے میں دوائیں، انجکشن وغیرہ تجویز ہوئے ، ساتھ ہی غذائی احتیاط کو بھی مد نظر رکھا گیا اور ان سب کے ساتھ ہی اسپیشلسٹ نے کہا کہ اس کے لئے صبح و شام کی ہوا خوری بے حد ضروری ہے۔
یہی کام سب سے مشکل ثابت ہوا، اس لئے کہ بچیاں تو بہر حال باہر نہیں جاسکتی تھیں اور بچوں نے اس مریل سی کتیا کی طرف کبھی بھی کوئی التفات نہیں ظاہر کیا۔ لہٰذا سیٹھ حبیب نے ضد میں آکر خود ہی اسے صبح و شام ٹہلانا شروع کردیا۔ ان کے فیملی ڈاکٹر نے کہا کہ اس صبح و شام کی سیر سے خود ان کی بھی صحت بنی رہے گی۔ چنانچہ سیٹھ حبیب کی جفا کشی سے واقعہ وہ نحیف و نزار کتیا چند ہی ہفتوں میں اتنی پرکشش ہوگئی کہ بچوں کے ساتھ ہی تمام گھر کی توجہ حاصل کرلی اور رفتہ رفتہ گھر کا ایک اہم اور ضروری و دلچسپ فرد بنتی چلی گئی۔ اس کی ہر بف اور ادا میں ان سب کو اس کے اصیل ہونے کی نشانیاں ملتی رہیں۔
لیکن ان تمام داخلی امور کے علاوہ اب سیٹھ حبیب کے لئے ایک مسئلہ اور پریشانی بھی پیدا ہوگئی تھی جس سے نجات کا کوئی ذریعہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ ہوتا یہ تھا کہ جیسے ہی صبح کو سیٹھ حبیب اس کتیا کو لے کر ہوا خورانی کے لئے نکلتے تو دیکھتے کہ دوچار اس کے ہم عمر پلے دروازے کے پاس اس کے برآمد ہونے کے منتطر کھڑے ہیں۔ وہ ذرا آگے بڑھتے تو آس پاس کے کونوں سے ان کو چھوٹے بڑے پلوں کی آنکھیں جھانکتی ہوئی نظر آتیں۔ پھر وہ آنکھیں جسم بن جاتیں اور وہ جسم ان کے پیچھے ہو لیتا۔ اس طرح و ہ وا خوری کے پارک تک پہنچتے پہنچتے پلوں کا ایک اچھا خاص جلوس ہوجاتا تھا۔ چونکہ سیٹھ حبیب راستے بھر ان پلوں کو خشمناک نظروں سے گھورتے اور زور دار آواز میں جھڑکتے ہوئے چلتے تھے۔ اس لیے وہ پلے اس کتیا کے نزدیک آنے سے ذرا جھجھکتے تھے۔ پھر بھی کوئی جاں باز پلا چند قدم آگے بڑھ کر اچانک ہی اس کتیا کو دھکا دے دیتا۔ یا کوئی دوسرا اسے گردن سے رگید نے کی کوشش کر ڈالتا۔ پہلی کی آواز پر سیٹھ حبیب کے چونکنے سے پہلے ہی وہ پلا دور کھسک لیتا اور مسکین صورت بنائے ساتھ ساتھ چلنے لگتا یا کبھی کبھی کوئی دوسرا احتجاج میں دو چار بف کردیتا۔۔۔ واپسی میں پھر یہی صورتِ حال رہتی۔ گھر کا دروازہ بند کرلینے کے بعد وہ ذرا مطمئن ہوتے اور شام کے خیال سے ہی الجھن محسوس کرنے لگتے۔ اکثر وہ چپکے سے کسی وقت کھول کر دروازہ دیکھتے تو فوراً دوچار پلے دروازہ کی چوکھٹ سے کود کر بھاگ جاتے۔ ادھر ادھر دیکھتے تو پاتے کہ دو چار مزید پلے کوڑے کے ڈھیر اور نالیوں میں سے کن انکھیوں سے ان کی طرف اور ان کے پیچھے کھلے دروازہ سے کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چنانچہ وہ پھر گھبراکر دروازہ بند کرلیتے۔ ابھی تک انہوں نے اپنی اس الجھن میں کسی کو شریک نہیں کیا تھا۔۔۔ لیکن ایک خلش سی دن بھر ان کو لگی رہتی اور وہ بار بار دروازہ کھول کر باہر دیکھتے رہتے تھے اور ہر دفعہ دو چار پلے ان کو آس پاس نظر ہی آجاتے۔ منہ ہی منھ کچھ بڑبڑا کر وہ پھر دروازہ بند کردیتے۔ گھر کے اندر کا ماحول ویسا ہی پُر سکون تھا۔۔۔ اور پلّی انتہائی مسکینی اور خاموشی سے اس گھر کا حصہ بنی رہتی۔۔۔
سیٹھ حبیب کی نظروں اور ذہن میں مسئلہ یہیں تک، یعنی انھیں خوش فعلیوں تک محدود نہ تھا۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ جیسے جیسے ہفتہ اور مہینہ گزرتا جارہا ہے ویسے ہی ویسے پلّی کی صحت قابل رشک ہوتی جارہی ہے اور اس کا جسم بھی بڑھتا پھیلتا جارہا ہے۔ اسی کے ساتھ باہر والے پلے بھی اب پلے نہیں کہے جاسکتے تھے۔ کتے ہوتے جارہے تھے۔۔۔
چنانچہ اب صبح کی ہوا خوری کے وقت زنجیر سے بندھی ہوئی ایک نحیف و کمزور پلی نہ ہوتی بلکہ کتیا تھی اور اس کے پیچھے اب پلوں کا جھنڈ نہیں بلکہ کتوں کا جلوس ہوتا تھا اور دن کو گلی میں اب کوڑے کے ڈھیر پر یا دروازہ کی چوکھٹ پر پلے نہیں لوٹتے یا گھیرے رہتے تھے۔۔۔ بلکہ کتے ہوتے تھے جن میں سے کوئی کتا نالی کے گندے پانی میں لتھڑا زبان باہر نکالے ہانپا کرتا تھا۔ لہٰذا ان کی الجھنیں اور پریشانیاں حد سے زیادہ بڑھتی جارہی تھیں اور اسی کی وجہ سے وہ بے حد چڑچڑے اور بد مزاج ہوتے جارہے تھے۔ ذرا سی بات پر گھبرا جاتے یا چیخنا شروع کردیتے یا ذرا سی فکر پر سر پکڑ کر بیٹھ جاتے تھے۔ اس لیے کہ اب ان کے سامنے ایک طرف تو اس کتیا کے لئے دوسرا اتنا ہی اصیل کتا تلاش کرنا تھا۔ دوسری طرف ان آوارہ نژاد کتوں سے اسے محفوظ رکھنا تھا تاکہ اس کتیا کی اصالت میں فرق نہ آنے پائے۔ اور اس کے علاوہ سب سے بڑا مسئلہ اس معاملے میں ان کی اصول پرستی کا تھا جس کے خلاف۔۔۔ محلہ کے سارے کتے متحد ہوتے جارہے تھے اور اس کی وجہ سے سیٹھ حبیب دن بہ دن زیادہ ضدی۔۔۔ اور چڑچڑے ہوتے جارہے تھے۔
اب یہ ان کی ضد ہی تھی جس کی بدولت کتیا کو تو انہو ں نے بکریوں والے کمرہ میں بند کرنا شروع کردیا اور خود ایک ڈنڈا لے کر دروازہ اچانک کھول کر باہر کھڑے کتوں پر ٹوٹ پڑتے۔ صبح و شام کی ہوا خوری بھی موقوف کردی تھی لیکن باہر والے کتے اب بھی باز نہیں آرہے تھے۔ اب تو انہیں ہر وقت ایک دھڑکا سا بھی لگا رہتا تھا کہ اب کچھ ہوا۔ ادھر ہوا خوری بند کردینے سے نہ صرف کتیا کی صحت پر بلکہ ان کی صحت پر بھی خراب اثر پڑنے لگا تھا۔ اور دونوں کے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا تھا کہ بہر حال آپ کو یہ مشغلہ جاری ہی رکھنا پڑے گا ۔ لیکن حبیب انتہائی متفکر تھے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکے گا۔
میں نے شاید بتایا تھا کہ سیٹھ حبیب کو گرمیوں میں آنگن میں اور سردیوں میں کمرہ میں مچھر دانی لگاکر سونا بہت پسند تھا۔ ایک رات جب وہ آنگن میں مچھردانی لگاکر سورہے تھے تو اچانک انہیں محسوس ہوا جیسے دروازہ پر کچھ آہٹ ہورہی ہے۔ جیسے کچھ لوگ دھیرے دھیرے آکر جمع ہورہے ہیں اور آپس میں کانا پھوسی کر رہے ہیں۔ پھر انہیں محسوس ہوا جیسے وہ لوگ دروازہ کی جھریوں سے گھر میں جھانکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی یہ پوری طرح حالات کو سمجھ بھی نہیں پائے تھے کہ دروازہ کی زنجیر ہلنے لگی۔ پھر ایسا لگا جیسے کچھ لوگ باقاعدہ دروازہ کو دھکا لگا کر توڑنے یا ڈھکیل دینے کی کوشش کر رہے ہوں۔ پھر دروازہ زور زور سے ہلنے اور بجنے لگا۔۔۔ سیٹھ حبیب بزدل تو نہیں تھے لیکن اس وقت ان کے مسامات نے بھی پسینہ چھوڑ دیا تھا۔ اور دل بہت تیزی سے دماغ میں آکر دھمکنے لگا تھا۔۔۔ کہ اچانک ہی باہر سے چوں چوں اور کوں کوں کی آواز سنائی دیں۔۔۔ پھر دیکھا کہ کتیا(جو رات کو عموماً کھلی رہتی تھی) تھوتھن لمبا کر کے تیزی سے دروازہ کی طرف دوڑی ہے۔۔۔ اور بجائے بھونکنے کے وہ بھی کوں کوں کر کے اندر سے دروازہ کو باہر ڈھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سیٹھ حبیب تیرکی طرح اٹھ کھڑے ہوئے۔ اور کتیا کو اپنے خاص کمرہ میں بند کر کے ڈنڈا لے کر دروازہ کھول دیا۔۔۔ تو دیکھا کہ دس بارہ کتے ساری گلی گھیرے کھڑے ہوئے ہیں۔ پہلے تو سیٹھ حبیب جھجھکے پھر اچانک نہ جانے کون سا غصہ آگیا کہ ان کتوں پر ٹوٹ پڑے۔ پہلا ڈنڈا سب سے آگے کھڑے ہوئے سیاہ رنگ کے انتہائی فربہ اور خوفناک شکل والے کتے کی ٹانگ پر پڑا۔ اس کے پیچھے ہٹتے ہی نہ جانے کتنے ڈنڈے، کتنے کتوں پر برس پڑے۔ اور سیٹھ حبیب جیسا محتاط و سنجیدہ آدمی بے تحاشا ماں بہن کی گالیاں بکتا ہوا دور تک ان کا پیچھا کرتا چلا گیا۔ جب وہ لوٹے تو سارا گھر جاگ کر دہشت اور سناٹے میں چپکا کھڑا ہوا تھر تھر کانپ رہا تھا۔ پہلے تو انہوں نے جھانک کر کتیا کو دیکھا۔ وہ انتہائی مسکین صورت لئے مسہری کے نیچے دراز تھی۔ پھر اسی تشنجی حالت میں انہوں نے سارے گھر کو متنبہ کیا کہ خبردار آج سے کتیا دن کے کسی بھی حصہ میں نہ کھولی جائے اور نہ ہی کسی وقت صدر دروازہ کھلا رہے۔ اگر اس کے ذرا بھی خلاف ہوا تو کتیا اور گھر کے افراد کو بھی گولی مار دی جائے گی۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب گھر والے کانپتے کانپتے اپنے بستروں پر گئے تو سیٹھ حبیب نے پکار کر کہا۔۔۔ ’’کل سے رات میں بھی کتیا کو کھولا نہیں جائے گا۔۔۔ بلکہ زنجیر سے وہ میری چارپائی کے پائے سے ہی باندھی جایا کرے گی۔‘‘
رات کے آخری حصہ میں انہیں لگا کہ دروازہ پر پھر کچھ آہٹ سی ہورہی ہے۔ ڈنڈا لے کر جھپٹ کر دروازہ کو کھولا۔۔۔ تو انہیں کوئی کتا نظر نہیں آیا۔ لیکن احساس ہوا کہ جیسے ایک سیاہ سایا لنگڑاتا ہوا ابھی گلی کے موڑ پر غائب ہوا ہے۔ الغرض ساری رات اسی طرح سوتے جاگتے گزری اور دوسرے دن صبح اٹھتے ہی انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے میونسپلٹی کے افسران سے کہا کہ کتا پکڑنے والی گاڑی کے ساتھ کچھ کارندے فوراً بھجوا دیئے جائیں۔ دوپہر کے وقت انہوں نے آنے کا وعدہ کیا۔
عین دوپہر کو جب سیٹھ حبیب نے کھڑکی سے جھانک کر دیکھا تو کتوں کا سارا جھنڈ گلی میں مشغول تھا اور اس میں وہ سیاہ رنگ کا لنگڑا کتا بھی موجود تھا۔۔۔ خوش ہوکر وہ گاڑی کا انتظار کرتے رہے۔
تھوڑی ہی دیر بعد انہیں کچھ شور سنائی دیا۔ دروازہ کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ گلی پتلی ہونے کی وجہ سے کتا پکڑنے والی گاڑی اندر نہیں آسکی تھی۔ اور کارندوں نے جال مارکر کچھ کتوں کو گرفتار کرلیا ہے۔ باقی کتے بھاگ گئے ہیں۔ انہیں یک گو نہ اطمینان ہوا ۔ آگے بڑھ کر جال میں پھنسے کتوں کو دیکھا تو سیاہ رنگ والا لنگڑا کتا اس میں نظر نہیں آیا۔ جس سے ایک ذرا سی انہیں تکلیف پہنچی۔ پھر وہ دروازہ پر کھڑے ہوئے محلہ کے بچو کو بھگا کر گھر میں چلے آئے اور سوچنے لگے کہ آج یقینا اطمینان سے گزرے گی۔
رات کو کتیا ان کی چارپائی کے پائے سے باندھ دی گئی اور یہ سوگئے لیکن نصف شب کے قریب انہیں پھر دروازہ پر اسی طرح کی آہٹیں محسوس ہوئیں۔ پھر زنجیر بجنے لگی اور دروازہ زور زور سے ہلنے لگا۔ تھوڑی دیر تک تو یہ برداشت کئے رہے پھر دروازہ پر کھروچ مارنے کی آوازوں کے ساتھ ساتھ کوں کوں کی کئی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ ا دھر ان کے پائے سے بندھی ہوئی کتیا نے بھی دبی دبی سی آواز میں ان کی کوں کوں کا جواب دیا اور کوشش کرنے لگی کہ خاموشی سے زنجیر سے نکل جائے۔ اسے گھڑک کر سیٹھ حبیب ڈنڈا لے کر اٹھے اور جھٹکے سے دروازہ کھول کر دیکھا تو پھر پانچ سات کتے نظر آئے۔۔۔ سیاہ رنگ کا کتا سب سے آگے نظر پڑا۔ لیکن ان کے ڈنڈا اٹھاتے ہی وہ تیر کی طرح سے غائب ہوگیا۔ دوسرے کتوں پر بھاگتے بھاگتے دو چار ڈنڈے پڑ ہی گئے۔
واپس آکر سیٹھ حبیب نے سونے کی کوشش کی لیکن نیند اچٹ چکی تھی۔ بستر پر لیٹے کروٹیں بدل ہی رہے تھے کہ پھر آوازیں آنے لگیں اور ادھر کتیا بھی بے چین ہونے لگی۔ جھلاکر سیٹھ حبیب پھر اٹھے اور د روازہ کھول کر ڈنڈا گھمایا۔۔۔ لیکن کتے اس بار ہوشیار تھے۔ ان کی آہٹ پاتے ہی وہ گلی کے نکڑ پر پہنچ کر بھونکنے لگے۔ جیسے ہی دروازہ بند کر کے یہ پلٹے انہیں لگا کہ پھر سب جمع ہوگئے ہیں۔ غصہ، جھلاہٹ، نیند اور اعصابی کشیدگی میں سیٹھ حبیب کا جی چاہا کہ اپنے ہی بال نوچ ڈالیں۔۔۔ پھر دروازہ کی طرف جھپٹے۔ لیکن دروازہ کھلنے سے پہلے ہی انہیں لگا کہ سارے کتے تیزی سے بھاگ رہے ہیں۔ پلٹ کر بستر تک آئے۔ جگ سے پانی انڈیل کر پیا تو کچھ جھلاہٹ کم ہوئی، لیکن اعصاب اسی طرح تنے رہے۔ تھوڑی ہی دیر بعد پھر لگا جیسے کتے دروازہ پر پنجہ مار رہے ہیں۔
اس بار دروازہ کھولنے کے بجائے انہوں نے وہیں سے زور زور سے زمین پر پیر مارے تو پھر کتوں کے بھاگنے کا احساس ہوا۔ تھوڑی دیر تک تو یہ ان کی واپسی کا انتظار کرتے رہے پھر گھڑی دیکھی تو معلوم ہوا کہ اب ان کے اٹھ جانے کا وقت قریب ہے۔ لہٰذا سونے کا سوال ہی نہیں۔۔۔ صبح ہوتے ہی انہوں نے پھر میونسپلٹی والوں کو فون کیا اوریہ طے پایا کہ چوں کہ گلی میں گاڑی نہیں جاسکتی اور جال لے کر بڑھنے میں کتے خطرہ محسوس کر کے بھاگ جاتے ہیں۔ اس لیے شام کو وہ وقت سے ذرا پہلے کتیا کو لے کر ٹہلنے نکلیں۔ اور تب میونسپلٹی والے اس جلوس پر منظم حملہ کرسکیں گے۔
وقتِ مقررہ پر سیٹھ حبیب کتیا کی زنجیر پکڑ کر نکلے تو آس پاس کی گلیوں سے جھانکتی ہوئی آنکھیں مجسم ہوکر جلوس کی شکل میں ان کے ساتھ چلنے لگیں۔۔۔ کھلی جگہ پر آتے ہی اچانک جلوس کو گھیر لیا گیا۔ اور چند لمحوں میں ہی بیشتر کتے گرفتار ہوچکے تھے۔ سیٹھ حبیب نے بڑے اشتیاق سے واپس آکر جال کو دیکھا تو وہ سیاہ رنگ کا لنگڑا کتا نظر نہیں آیا۔ ا نہیں غصہ کے ساتھ تشویش بھی ہوئی۔ لڑکوں نے بتایا کہ دو کتوں کے ساتھ لنگڑا کتا گاڑی کو دیکھتے ہی بھاگ نکلا تھا۔ لہٰذا سیٹھ حبیب کارندوں کا شکریہ ادا کر کے وہیں سے واپس آگئے لیکن رات کا خدشہ ابھی سے ان پر سوار تھا۔۔۔ نصف شب تک تو آرام سے سوتے رہے۔۔۔ اچانک کسی غیر مرئی خطرہ کے تحت ان کی آنکھ کھل گئی۔ دبے قدموں وہ ڈنڈا لے کر دروازہ تک آئے۔ (پیش بندی کے طور پر آج صرف ایک ہی زنجیر لگائی تھی) اور جلدی سے دروازہ کھول دیا۔ دیکھا تو سیاہ کتا دو کتوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں کتے انہیں دیکھتے ہی تیزی سے نکڑ کی طرف بھاگے۔ ڈنڈا گھمانے سے پہلے انہوں نے سوچا کہ یہ سیاہ رنگ کا لنگڑا کتا بھی بھاگ جائے گا لیکن وہ اسی طرح ان کے سامنے کھڑا رہا۔ پھراس کی ہلکی ہلکی غراہٹ ابھرنے لگی۔ پہلے تو سیٹھ حبیب نے سوچا کہ حسبِ دستور ڈنڈا اٹھائیں لیکن نہ جانے کیوں ان کا آدھا اٹھا ہوا ہاتھ بھی نیچے لٹک گیا۔
وہ سیاہ رنگ کا کتا آہستہ آہستہ واپس جانے لگا تو یہ بھی جلدی سے گھر میں گھس پڑے اور مضبوطی سے دروازہ بند کر کے کتیا کو غور سے دیکھتے ہوئے بستر پر گرپڑے۔ انہوں نے سونے کی بھی بہت کوشش کی لیکن پھر نیند نہیں آئی۔ دوسرے دن انہوں نے گلی میں بار بار جھانک کر دیکھا، لیکن کوئی کتا نظر نہیں آیا تھا۔ رات ہونے سے پہلے انہوں نے اپنے چھوٹے لڑکے سے کہا کہ ذرا گلی اور اس کے آس پاس جاکر دیکھ آئے کہیں کتے نظر آرہے ہیں یا نہیں۔ خاص طور سے وہ سیاہ والا لنگڑا کتا۔۔۔ لڑکا خاصی دیر بعد لوٹ کر آیا تو اس نے بتایا کہ آس پاس کہیں بھی کوئی کتا نہیں ہے۔ ہاں دور حلوائی کی دوکان کے پاس دو کتے بیٹھے ہوئے تھے، لیکن سیاہ رنگ والے کتے کی ایک جھلک پانچ چھ مکان چھوڑ کر ایک مکان کی چھت پر لمحہ بھر کے لئے نظر آئی تھی۔ پھر پتہ نہیں وہ کدھر چلا گیا۔ سیٹھ حبیب نیم مطمئن تو ہوئے لیکن پورے طور سے آسودگی نہیں ملی تھی۔ لہٰذا رات کو بار بار جاگ کر کسی آہٹ کے منتطر رہے۔ ایک آدھ بار دروازہ کھول کر بھی دیکھا لیکن آس پاس نہ تو کوئی کتا نظر آیا۔ نہ ان کی موجودگی کا احساس ہوا۔
دوسری صبح وہ خاصے مطمئن رہے۔ اس شام کو پھر انہوں نے لڑکے کو دیکھ بھال کے لئے بھیجا۔ اس نے آکر خبر دی کہ دو کتے آج قصائی کی دوکان کے پاس پڑے ہیں لیکن سیاہ رنگ والا کتا واقعی تین چار مکان چھوڑ کر ایک چھت پر ٹہلتا دکھائی دیا ہے۔ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ لہٰذا سیٹھ حبیب یہ سوچ کر کہ اب کتے خوفزدہ ہوچکے ہیں لہٰذا خطرہ نہیں ہے۔ نیم آسودہ ہوکر سوگئے ۔ اس رات بھی انہیں کوئی آہٹ نہیں سنائی دی۔
صبح کو وہ بہت بشاش اور مطمئن تھے۔ شام کو کتیا کو لے کر عمداً ٹہلنے نکلے لیکن گھوم پھر کر واپس آگئے اور کوئی کتا ان کے ساتھ نہیں آیا۔ سیاہ رنگ والے لنگڑے کا تو کہیں پتہ ہی نہیں تھا۔ اسی لیے آج انہوں نے اپنے لڑکے کو دیکھ بھال کے لئے بھی نہیں بھیجا ۔ چونکہ کئی راتوں سے برابر اچٹتی ہوئی نیند آرہی تھی اور اعصابی کشیدگی بھی تھی۔۔۔ لہٰذا آج جب سکون ملا تو خوب آرام سے سوئے۔۔۔
صبح جب وہ اپنی نیند پوری کر کے حسبِ معمول چار بج کربیس منٹ پر اٹھے اورچپل پہن کر نیچے سے لوٹا اٹھانے کے لئے جھکے تو انہیں دو سیاہ ہیولے نظر آئے۔ پہلے تو انہوں نے نظر کا دھوکہ جانا لہٰذا اور غور کیا تودیکھا کہ ایک کتیا کے بجائے دو ہیں۔ پھر اور غور سے دیکھا تو دونوں کی جسامت میں فرق پایا۔۔۔ اچانک گھبراکر انہوں نے بجلی جلا دی۔۔۔ جھک کر مسہری کے نیچے دیکھا۔۔۔ دیکھتے رہے۔۔۔ پھر خاموشی سے اٹھے۔ گھر والوں کو دیکھا وہ سب سورہے تھے۔۔۔ پہلے بجلی بجھائی، پھر بڑی آہستگی سے دروازہ کھولا۔۔۔ پھر کتیا کی زنجیر کھولی۔۔۔ اور بڑی مشکل سے ۔۔۔ لیکن خاموشی سے دونوں گتھے ہوئے ہیولیوں کو گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کردیا۔۔۔۔