گردباد اور پیلیا
جب ایک عیسوی سال میں دو بار محرم پڑتا ہے تو انقلاب ضرور آتا ہے۔ ٹھاکر فتح علی خاں اپنی پیلی کوٹھی میں شیشم کی پالش شدہ قدیم ارسٹو کریٹک مسہری سے ٹیک لگائے ہوئے بدبدائے۔ سفید مسہری کی چادر سے ان کی نظریں پھسل کر فرش کی سفید چاندنی اور سفید گاؤ تکیوں پر ٹک گئیں۔۔۔
فرش پر قرآن مجید کے تیس پارے بری طرح بکھرے ہوئے تھے اور سارے کمرہ میں شہد کی مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ ابھر رہی تھی۔ سامنے ایک سرپوش سے ڈھکے ہوئے خوان میں سفید سفید الائچی دانے جھانک رہے تھے۔ پاس ہی دوسرے خوانوں میں امرتیاں رکھی تھیں۔ انہوں نے سرجھٹک کر باہر دیکھا۔ لاحول ولا قوۃ ۔ تیس سال پرانا سارا منظر سامنے آرہا ہے۔ ایک دہشت سی محسوس کر کے انہوں نے چور نظروں سے فرش کی طرف دیکھا۔ سامنے ہی مسلم ، ابن ماجہ، ترمذی اور کشاف کی جلدیں رکھی ہوئی تھیں۔
ان کی نظریں کھڑکی سے باہر نکل گئیں، سامنے ہوا محل میں حکیموں کا نیا خاندان آگیا ہے۔
انہوں نے تاریخ ابو الفدا کے اوراق الٹے اور نشانی کے طور پر رکھا طاؤس کا پر اگلے صفحات میں دبا دیا۔
’’چنانچہ مسلم ابن قتیبہ کو ابو مسلم خراسانی کے ہاتھوں شہرِ ناکسان خراسان میں خاصا تنگ ہونا پڑا۔ تب اس نے بارگاہِ عالی کو ایک گزارش کے ذریعہ آگاہ کیا کہ ان سیاہ پوشوں نے خلائق کی حلق بند کر رکھی ہے اور وہ ایک ہلّڑ کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں۔ ان کے دل بنو امیہ کے ساتھ ہیں لیکن تلواریں سیاہ پوشوں کی نیام میں۔۔۔ کچھ نام نہاد حامیانِ سلطنت خفیہ طور سے اہالیان و سپہ سالاران حکومت کی شکست کے لئے مناسب فضا تیار کرتے رہتے ہیں ایسے میں شکست لازمی ہے۔ شاہا غور فرمائیں کہ ایسے میں عام اعلانِ جہاد کہاں تک مناسب ہوگا۔‘‘
قدموں کی چاپ ابھری تو انہوں نے نظر اٹھاکر برآمدے میں دیکھا۔ پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر پنڈت ترلوچن شاستری چہرے پر ایک پراسرار گمبھیرتا لیے آتے دکھائی دیے۔
’’ٹھاکر صاحب۔۔۔ اب یہ وبا پھیلتی اور بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اب تو پرائمری اسکول کے بچے بھی اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔‘‘
’’ارے پنڈت جی۔ یہ پیلیا ہے۔ یرقان۔ جگرہ کی خرابی سے ہوتا ہے۔‘‘
’’ٹھاکر صاحب، ایک ساتھ سب کو پیلیا۔ پورے دیش کو پیلیا۔ چھوٹے بڑے ، مرد عورت سب کو پیلیا کیسے ہوجائے گا؟‘‘
’’ہوجاتا ہے سب کو پیلیا ہوجاتا ہے،‘‘ ٹھاکر صاحب نے ٹالتے ہوئے کہا۔
’’نہیں یہ پیلیا نہیں ہے۔ آج ہی صبح اسکول کے تین چار لڑکے باتیں کر رہے تھے کہ صبح ہوتے ہی پچھم کی اور سے گرد کا بونڈر آتا ہے ۔ پھر دھیرے دھیرے پھیلنے لگتا ہے۔ پیڑوں سے ، مکان کی چھت دیواروں اور دروازوں سے چاروں اور سے مہین مہین گرد کے ذرے پھیلنے لگتے ہیں۔ پھر سب مل کر ایک بونڈر (بگولہ) بن جاتے ہیں اور چکراتے ہوئے کسی جاندار کو اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں۔ پھر وہ جاندار پیلا ہوجاتا ہے۔ گرد کے ذروں کی طرح ۔ بالکل پیلے کاغذی لیموں کی طرح۔‘‘
پنڈت جی کے جاتے ہی ٹھاکر صاحب نے قدِ آدم آئینہ میں سراپا دیکھنا چاہا تو صرف ایک مبہم سے خاکہ کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ سارا آئینہ پیلے رنگ کی گرد سے اَٹا ہوا تھا۔ رومال سے اسے صاف کرنا چاہا تو لگا گرد اس پر جَم چکی ہے۔ گھبراکر انہوں نے دوسرے آئینہ کی طرف دیکھا۔ وہاں بھی صرف دھندلا سا خاکہ۔۔۔ ایک پیلا مجسمہ نظر آیا۔۔۔ نہیں نہیں۔ یہ آئینوں تک ہی محدود ہے۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔ صندوق میں رکھے آئینے کو نکال کر انہوں نے اپنے کو دیکھا تو سہم گئے۔۔۔ یہ آئینہ تو محفوظ تھا لیکن ان کا جسم اور چہرہ۔۔۔ سارے کپڑے اتار کر انہو ں نے سوچا ۔۔۔ یہ گرد صرف کھلے ہوئے حصوں پر اثر انداز ہوتی ہوگی۔ بنیان اتارتے ہی ان کی نظر پیٹ اور سینہ پر پڑی۔۔۔ زرد۔۔۔ پیلیا۔ کپکپا کر انہوں نے آئینہ پھر صندوق میں ڈال دیا۔ اور غسل خانہ میں جاکر پائجامہ اتارکر کھڑے ہوگئے۔ رانوں سے لے کر پنڈلیوں تک۔۔۔ سب کچھ زرد ہوگیا تھا۔۔۔ انہو ں نے اپنا چہرہ سہلایا ورم کا کہیں بھی احساس نہیں ہوا۔ نہیں یہ پیلیا نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کئی کئی بار صابن لگاکر غسل کیا پھر ڈرتے ڈرتے باہر آکر صندوق سے آئینہ نکالا۔۔۔ لیکن سوائے ایک مبہم خاکہ کے آئینہ میں کچھ نظر نہ آیا۔۔۔ گھبراکر انہوں نے سارے مکان کو دیکھا۔ سب کچھ پیلا۔۔۔ زرد۔۔۔ ہشت۔۔۔ یہ تو پیلی کوٹھی ہے ہی۔برآمدہ میں نکل کر انہو ں نے سامنے کی طرف دیکھا۔ سارے سرسبز درخت اور گھاس۔ کھیت۔ تالاب اور عمارتیں ۔ زرد رنگ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ کچھ نہیں یہ میری آنکھوں کا قصور ہے۔
سامنے سے جاتے ہوئے ایک شخص کو انہوں نے آواز دی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا۔ تیزی سے ان کی طرف بڑھا۔ ٹھاکر صاحب نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ارے کیا تم بھی۔۔۔
’’ہاں،‘‘ ا س نے حسرت اور بے چارگی سے کہا۔ ’’سارے گاؤں اور سارے جوار میں وَبا آچکی ہے۔ اب تو ہم لوگ ڈر کے مارے منھ بھی نہیں کھولتے۔ کیا پتہ کیا ہوجائے۔ پچھلے گاؤں کا ایک جوان گرد کی پہلی باڑھ کو دیکھتے ہی بڑے زوروں سے چیختے ہوا بھاگا تھا اس کا اب تک کچھ پتہ نہیں چل سکا ہے۔ ہم تو یہ گاؤں چھوڑ کر جارہے تھے کہ اچانک معلوم ہوا کہ تمام گاؤں میں یہ وبا پھیل چکی ہے۔‘‘
’’اچھا کیا میں بھی پیلا لگتا ہوں۔۔۔؟‘‘ ٹھاکر نے اس کی پیلی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اس نے گردن جھکالی۔ ٹھاکر نے امید بھری نظروں سے پھر اس کی طرف دیکھا تو صرف ایک زرد سا ہیولیٰ نظر آیا۔۔۔ اچھا ذرا حکیم جی کو بھیجتے جانا۔
’’ان کے گھر ساری مرغیاں آج مری ہوئی ملی ہیں۔‘‘
’’کیا مطلب، کیسے۔۔۔؟‘‘
’’صبح آنگن میں دانہ چگتے چگتے۔۔۔ اچانک پھڑپھڑا کر گریں اور ختم ہوگئیں۔ وہ انھیں کے پاس کھڑے ہیں۔‘‘
ٹھاکر فتح علی خاں تیزی سے اپنے کبوتر خانہ کی طرف بڑھے۔ دربوں میں بڑا سناٹا معلوم ہوا۔ سامنے چھپر کے سایے میں سارے کبوتر ایک جگہ سمٹے بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹھاکر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے انہیں اڑانا چاہا تو سارے زرد رنگ کے کبوتر ٹکرٹکر انہیں تکتے رہے۔ زرد رنگ کے کنستر سے انہوں نے زرد رنگ کے دانے زرد رنگ کی زمین پر بکھرادیے۔ جنہیں زرد رنگ کے کبوتروں نے دیکھا لیکن اپنی جگہ سے ہل نہ سکے۔ ایک زرد رنگ کے کبوتر میں کچھ حرکت پیدا ہوئی اس نے پلٹ کے دوسرے زرد رنگ کے کبوتروں کی طرف دیکھا۔ رینگتا ہوا آگے بڑھا زرد سایہ سے زرد رنگ کی دھوپ میں آتے ہی وہ ایک طرف لڑھک گیا۔
وہ باہر آئے تو پنڈت ترلوچن شاستری ان کے منتظر تھے۔
’’سنا ٹھاکر صاحب! پچھلے گاؤں سے ۱۳ بھینسیں ۳۵ بیل اور لاتعداد بکریوں کے مرنے کی اطلاع آئی ہے۔ لڑکے بتا رہے تھے کہ کل شام سے ہی بسیرے پر واپس آنے والے پرندے ایک ایک کر کے راستے میں ٹپک رہے تھے۔ درختوں تک ایک آدھ ہی پرندے آپائے تھے۔ صبح سے ان کا بھی پتہ نہیں ہے۔ آج صبح سے کہیں آس پاس کوّے بھی نہیں بولے ہیں۔ پیڑوں کے نیچے پیلے رنگ کے کووں اور زرد رنگ کے طوطوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ جیسے گرمی کی آندھی میں آم بکھر گئے ہوں۔ میں اپنے گاؤں بھی نہیں جاسکتا کیا پتہ وہاں یہ وبا نہ آئی ہو اور میرے پہنچنے سے پھیل جائے۔‘‘
’’جاتے وقت ذرا حکیم صاحب کو بھیجتے جانا،‘‘ ٹھاکر صاحب نے کہا۔
’’حکیم صاحب کا لڑکا ابھی ابھی شہر سے آیا ہے وہ اس کے ساتھ ہیں۔‘‘
’’دونوں کو بھیج دینا۔‘‘
حکیم صاحب کے ساتھ ہی ایک دبلا پتلا لمبا سا لڑکا بھی برآمدہ کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا۔ ٹھاکر صاحب نے دیکھا کہ وہ اعصابی مریضوں کی طرح بار بار اپنے ہونٹ کاٹ رہا ہے اور کھڑے رہنے پر بھی اس کی زرد رنگ کی ٹانگیں ہل رہی ہیں۔
’’تو کیا شہر میں بھی۔۔۔؟‘‘ ٹھاکر صاحب نے کچھ کہنا چاہا تو نوجوان شدت سے بھڑک اٹھا اور درمیان سے بات اچک لی۔
اس نے تشنّجی لہجہ میں کہا، ’’جی ہاں۔ سب سے پہلے ہمیں ایک صبح اخباروں کے دریعہ سے معلوم ہوا۔ اور ہم سب اسے دیکھنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے۔ سڑک پر چاروں طرف سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ سرکاری دفتروں میں اس دن حاضری ایک فیصد بھی نہیں رہی۔ سب اپنے گھروں کے دروازوں پر۔ چھتوں پر اور دفاتر کے سامنے لان اور زمینوں پر جمع ہوگئے تھے۔ کبھی آسمان کی طرف دیکھتے اور کبھی سڑک کی طرف۔ پھر دوسرے دن اخباروں کے ذریعہ ہی اس کی تردید شروع ہوگئی۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے اسپیشل پروگرام نشر ہونے لگے اور پھر سب خاموش ہوگئے۔ نہ تردید نہ تائید۔ پھر اچانک ہی ایک ایک کر کے لوگ سڑکوں، دفتروں اوربازاروں سے کم ہونے لگے۔ کچھ کو زبردستی گھروں تک محدود کردیا گیا۔ اور کچھ لوگ جن سے بات پھیلنے کا خطرہ تھا غائب کردیے گئے۔۔۔‘‘ نوجوان اعصاب زدہ شخص کی طرح بار بار اپنا زرد ہاتھ جھٹک رہا تھا اور اپنے پیلے ہونٹوں کو کاٹ رہا تھا۔
’’آہستہ آہستہ ان کی تعداد بڑھنے لگی اور وہ خاموشی سے اپنا زیاں دیکھتے رہے۔ اب وہ کسی اپنی بیماری کا تذکرہ بھی نہیں کرپاتے۔ راستہ میں اگر کوئی ایک دوسرے کی طرف بڑھتا نظر آتا تھا تو دوسرا سہم کر آس پاس کی کسی گلی میں غائب ہوکر آنے والے کے قدموں کی چاپ پر کان لگا دیتا تھا۔ اب تو سارے شہر میں ہو کا عالم طاری ہے اور لوگ جھکی جھکی گردنوں سے اپنے فرائض ا نجام دے رہے ہیں۔ اعصابی امراض کے ڈاکٹروں کے یہاں بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔ اب تو سارا شہر ہی زرد رنگ کی گرد کا شکار ہوچکا ہے۔‘‘
’’تو کیا یونیورسٹی بند ہوچکی ہے،‘‘ ٹھاکر صاحب نے پوچھا۔
’’جی نہیں۔ زرد رنگ کی کلاسوں میں زرد رنگ کے پروفیسر صاحبان بیٹھے خاموشی سے زرد رنگ کی دیواروں کو دیکھتے رہتے ہیں، پھر چپ چاپ اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔‘‘ اس کا لہجہ بڑا تلخ ہوگیا۔
اب سارے شہر میں ساڑھے چھ بجے سے رات گئے تک زرد رنگ کے گرد باد آتے رہتے ہیں اور کبھی کبھی بگولہ بن کر ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں پھر چکراتے ہوئے کہیں اور نکل جاتے ہیں۔ ساری سڑکیں سنسان اور تمام بازار ویران ہوچکے ہیں۔ لوگ صرف ڈاکٹروں کی دکانوں یا نجومیوں کے دروازوں پر نظر آتے ہیں۔ مسجدوں اور مندروں میں بھی بھیڑ بڑھتی جارہی ہے۔
’’لیکن یہ ہے کیا۔۔۔۔۔۔ پیلیا۔۔۔ جگر کی خرابی۔۔۔؟‘‘ ٹھاکر صاحب نے سوال کیا۔
’’نہیں۔۔۔‘‘ نوجوان چیخ اٹھا۔۔۔ ’’جانتے سب ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں ۔ لیکن کہتا کوئی نہیں۔۔۔ سب اسے جانڈس کہتے ہیں۔‘‘
’’حکیم صاحب یرقان کیوں ہوتا ہے۔ اسباب و علامات کیا ہیں؟‘‘
’’کبھی کبھی کڑوا تلخ پِت سارے جسم میں پھیل جاتا ہے اور کبھی جراثیم حملہ آور ہوتے ہیں اور جگر اپنا فعل ترک کردیتا ہے اور خون کی پیداوار کم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے۔ جس سے جگر اور آنتوں میں ورم آجاتا ہے، پھر آہستہ آہستہ جسم کا سارا خون جل جاتا ہے۔ اس کی آخری اسٹیج پر بچنا ناممکن ہوجاتا ہے۔‘‘
’’اورآخری اسٹیج گزر چکی ہے۔ شہر کے درختوں پر اب کوئی پتہ بھی نہیں ہے۔ سارے پرندے اور جانور ختم ہوچکے ہیں۔ روز صبح صفائی کرنے والوں نے سڑک سے مردہ پرند اور جانوروں کے ڈھیر کچرا لادنے والی گاڑیوں میں بھر بھر کر شہر سے باہر پھینکے ہیں،‘‘ لڑکا چیخ اٹھا۔
’’کیا یہ کوئی وبا ہے۔۔۔؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ وبا ہے۔۔۔ زرد رنگ کے ذروں نے مکانوں کی چھتوں، کھڑکیوں، بستر، فرش، کتابوں اور تمام مناظر کو جکڑ لیا ہے۔ بگولہ بننے سے پہلے یہ ذرےنظر بھی نہیں آتے بس جمتے چلے جاتے ہیں اور اچانک آدمی کو احساس ہوتا ہے کہ وہ وبا کا شکار ہوچکا ہے۔ پہلے تو وہ آئینہ میں ہر ہر زاویہ سے اپنے کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر جب آئینہ بھی زرد رنگ کے گرد باد میں دھند لاجاتا ہے تو وہ اسے چھڑانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس میں ناکام ہوکر وہ صرف حسرت سے دوسروں کی طرف دیکھتا ہے اور آنے جانے والوں سے خوف زدہ ہوکر اپنے وقت کا انتظار کرتا رہتا ہے۔‘‘
’’ہم سب اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ اب بچنے کی کوئی سبیل نہیں ہے، بس خاموشی سے انتظار کرنا ہے۔۔۔ میرے والدین بھی اس کا شکار ہوچکے ہیں اور میرا سب سے چھوٹا بھائی بھی۔‘‘
حکیم صاحب نے زرد آنکھوں سے اپنے نوجوان لڑکے کی طرف دیکھا اور خاموشی سے اس کا زرد ہاتھ پکڑ کر برآمدے کی سیڑھیاں اتر گئے۔ گھر پر اس کی زرد رنگ کی ماں زرد رنگ کے پیالے میں زرد رنگ کا دودھ لیے کھڑی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر ریڈیو کھولا تو حکیم صاحب نے زرد رنگ کی آواز میں پکار کر کہا۔۔۔ رضا۔۔۔ ریڈیو بند کردو۔۔۔ سب نے اپنی اپنی زرد ا ٓنکھوں سے دوسروں کے زرد چہروں کو دیکھا اور سرجھکا کر بیٹھ گئے۔
ٹھاکر صاحب جیسے ہی برآمدہ سے اندر آئے فرش پر بکھرے الائچی دانے پھر نظر آنے لگے۔ زرد رنگ کے فرش پر زرد رنگ کےالائچی دانوں کے درمیان بکھری ہوئی زرد رنگ کی کتابیں۔۔۔
پنڈت ترلوچن شاستری کو بلاکر انہوں نے الائچی دانوں سے نظریں بچاتے ہوئے کہا، ’’پنڈت جی ہمیں اب سفر کرنا ہی پڑے گا۔۔۔ پچھلی بار آپ کو یاد ہوگا۔ ہمارے والدین وہیں گئے تھے۔‘‘
’’اور آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ وہاں کسی وبا کے آثار نہ تھے۔‘‘
’’لیکن سفر کی صعوبتیں۔۔۔؟ کیا آپ کو راستہ یا دہے؟ اور وہ تمام مرحلے۔ مٹ میلا، تیز ، غصیلہ، دریا، اور ریت کے وسیع و عریض میدان۔‘‘
’’پھر۔۔۔؟‘‘ پنڈت جی نے اور کچھ کہنا چاہا۔
’’مجھے اب ان بکھرے ہوئے اوراق۔ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور ان الائچی دانوں سے خوف محسوس ہورہا ہے۔ زرد گرد باد کا کیا ٹھیک ۔ میرے پاس نقشہ موجود ہے۔‘‘
’’کیوں نہ ہم حکیم صاحب کے لڑکے کو بھی ساتھ لے لیں۔۔۔‘‘ ٹھاکر صاحب نے حکیموں کے دروازہ کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔۔۔’’ تم سفر کی تیاری کرو۔۔۔ ہم ۱۹؍جون کو روانہ ہوں گے۔۔۔‘‘
’’رضا میاں۔۔۔ ہم گرد باد سے باہر کا سفر کر رہے ہیں۔‘‘
گرد باد کا انت کہیں نہیں ہے۔ اب اندرباہر ہر طرف پیلیا ہے۔ ٹھاکر صاحب آپ کی ساری حرکت احمقانہ ہے۔ میں یہ بات اپنے باپ سے نہیں کہہ سکتا۔ لیکن ہم ایک وسیع و عریض زرد رنگ کے بونڈر میں قید ہوچکے ہیں۔ اور ہم اس سے باہر نکل ہی نہیں سکتے۔ میرا باپ اکیلا بیٹھا۔ زرد رنگ کے نیم کے تنکے سارے گھر والوں کے لئے ابال رہا ہے۔ چلیے جلدی کیجئے۔ میں بھی اس احمقانہ فعل میں شریک ہورہا ہوں۔ایک مہمل سے دوسرے مہمل کا سفر۔۔۔اس لیے کہ اب ہمارے بس میں کچھ نہیں رہ گیا ہے۔
ہم ۱۹؍ جون کی صبح روانہ ہوں گے۔ کم از کم چار دن کا راستہ ہے پہاڑی چٹانوں سے گزر کر ہمیں ایک TUNNEL میں داخل ہونا پڑے گا۔ پھرمٹ میلے رنگ کے دریا کو پار کر کے ہم ریت کے میدان میں اتریں گے۔
’’بس وہ سامنے والا سبز گنبد ہماری منزلِ مقصود ہے،‘‘ رضا کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھاکر فتح علی حاں نے کہا۔
’’ہمارا چار دن کا سفر بہ خیر و خوبی ختم ہوا اب ہم گرد باد سے باہر ہیں،‘‘ پنڈت جی نے سکون کی سانس آزاد کی۔
’’نہ جانے میرے ماں باپ اور میرے چھوٹے بھائی کا کیا ہوا۔ رضا نے ڈبڈبائی آنکھوں سے کچھ سربزو شاداب درختوں کے جھنڈ میں چھپے گنبد کو دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ ہاں ہم گرد باد سے باہر ہیں۔۔۔‘‘
’’ہم ۱۹؍ جون کی رات کو ہی گرد باد سے باہر آگئے تھے،‘‘ پنڈت ترلوچن شاستری نے کہا۔
ٹھاکر فتح علی خاں جلدی سے گنبد کے سامنے میدان کی سبز گھاس پر لیٹ کر اپنا جسم سبزے پر رگڑنے لگے۔ پھر گبند میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے سرخ پھولوں کا ایک گچھا بھی توڑ لیا تھا۔۔۔ جسے ہاتھوں میں لے کر انہوں نے آسودگی سے رضا اور پنڈت جی کی طرف دیکھا۔ تینوں نے ٹھنڈی سانس لی۔۔۔ اپنے جسم کو دیکھا۔۔۔ اور جلدی جلدی سارے کپڑے اتارنے لگے۔۔۔ پیلیا۔۔۔ گرد باد ختم ہوچکا تھا۔
’’لکھنؤ۔۔۔ ۲۰؍جون۔۔۔ کل بنارس اور مغل سرائے کے درمیان ٹرین کے افسوسناک حادثہ میں جن تین آدمیوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں ان کی شناخت ہوگئی ہے اور ان کے نام حسبِ ذیل ہیں۔۔۔
(۱) ٹھاکر فتح علی خاں ۵۸ سال۔
(۲) پنڈت ترلوچن شاستری ۵۶ سال اور عاصم رضا ۲۵ سال۔
وزیر ریلوے نے اپنے ایک پیغام میں اس حادثہ پر افسوس ظاہر کیا ہے اور مرنے والوں کے پس ماندگان کے غم میں اپنے کو شریک بتایا ہے۔‘‘