کسی کی آنکھ خالی ہو گئی تھی

کسی کی آنکھ خالی ہو گئی تھی
محبت اتنی مہنگی ہو گئی تھی


تجھے جاتے سمے اتنا پکارا
مری آواز زخمی ہو گئی تھی


ذرا سا مسکرا کے اس نے دیکھا
فضا ساری گلابی ہو گئی تھی


وہ جس دن راستہ بدلا تھا تو نے
مری ہر راہ کھوٹی ہو گئی تھی


اسے راجا نہیں مل پایا تو پھر
وہ خود ہی اپنی رانی ہو گئی تھی


ہمارے ہاتھ نیچے گر گئے تھے
تری دیوار اونچی ہو گئی تھی


ادھورے خواب سے پیچھا چھڑایا
مجھے اب نیند پیاری ہو گئی تھی


اسے جنما تھا میں نے دکھ اٹھا کے
پرائی کیسے بیٹی ہو گئی تھی


تمہاری راہ تکتے تھک گئی جب
وہ کالی آنکھ نیلی ہو گئی تھی