کسی کے عشق کا یہ مستقل آزار کیا کہنا
کسی کے عشق کا یہ مستقل آزار کیا کہنا
مبارک ہو دل محزوں ترا ایثار کیا کہنا
نہ کرتے التجا دیدار کی موسیٰ تو کیا کرتے
چلا آتا ہے کب سے وعدۂ دیدار کیا کہنا
وہی کرتا ہوں جو کچھ لکھ چکے میرے مقدر میں
مگر پھر بھی ہوں اپنے فعل کا مختار کیا کہنا
قدم اٹھتے ہی دل پر اک قیامت بیت جاتی ہے
دم گلگشت اس کی شوخی رفتار کیا کہنا
شب ہجراں پہ میری رشک آتا ہے ستاروں کو
بھرم تجھ سے ہے میرا دیدۂ بیدار کیا کہنا
ترے نغموں سے واصفؔ اہل دل مسرور ہوتے ہیں
بایں افسردگی رنگینی گفتار کیا کہنا