کس وقت حادثوں سے پڑا سابقہ مجھے

کس وقت حادثوں سے پڑا سابقہ مجھے
خود ناگ بن کے ڈستا ہے سایہ مرا مجھے


میں نے خوشی سے بار امانت اٹھا لیا
حیرت سے تکتے رہ گئے ارض و سما مجھے


احساس درد لذت غم پیار کا خمار
مت پوچھ بزم ناز سے کیا کیا ملا مجھے


یہ انکشاف ذات ہے معراج زندگی
کچھ بھی نہیں ہے یاد خدا کے سوا مجھے


تقریر کام آئی نہ تحریر عمر بھر
اک جنبش نگاہ نے چونکا دیا مجھے


پھر مسکرا اٹھے ہیں میرے زخم ہائے دل
پھر تیری یاد بن گئی اک سانحہ مجھے


صبح نشاط دل ہے نہ شام غم حیاتؔ
اے اضطراب شوق کہاں لے چلا مجھے