کبھی بے مدعا دینا کبھی با مدعا دینا
کبھی بے مدعا دینا کبھی با مدعا دینا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا تری سرکار کا دینا
کبھی محراب دل کو درخور کعبہ بنا دینا
کبھی دامان غم کو بھی مدینے کی ہوا دینا
مبارک ان کو اپنی راہ میں کانٹے بچھا دینا
ہمیں آتا ہے بس دشمن کے حق میں بھی دعا دینا
جناب شیخ کا یہ زہد و تقویٰ کیا عبادت ہے
مآل بندگی ہے زندگی اپنی مٹا دینا
تری نظروں کے صدقے بے پیے ہی مست ہیں ساقی
ہمارے سامنے سے ساغر و مینا ہٹا دینا
ریاض زخم کو دی تازگی میری نگاہوں نے
مرے اشکوں کو آتا ہے خزاں میں گل کھلا دینا
غزل کو اب حیاتؔ افروز نظاروں کی حاجت ہے
قدامت سے الگ ہٹ کر نئی دنیا بسا دینا