کس قدر اونچے مرے دام ہوا کرتے تھے
کس قدر اونچے مرے دام ہوا کرتے تھے
کرشن میرے تھے مرے رام ہوا کرتے تھے
میرے بھارت میں فقیروں کی سدا چلتی تھی
صوفی سنتوں سے یہاں کام ہوا کرتے تھے
کل تلک پیار ہی مذہب تھا مرے پرکھوں کا
کتنی آسانی سے ہم رام ہوا کرتے تھے
اب جو ملبہ یہاں نفرت کا نظر آتا ہے
پیار کے اس میں در و بام ہوا کرتے تھے
ہم تو ہندو بھی تھے مسلم بھی تھے انسان بھی تھے
صبح جو ہوتے وہی شام ہوا کرتے تھے
عشق آیا تو ہمیں پیار بھرے نام ملے
پیار سے پہلے تو بے نام ہوا کرتے تھے
اب تو پھولوں سے گزرتے ہیں بچا کر دامن
جو منورؔ کبھی گلفام ہوا کرتے تھے