اب کوئی جیت نہیں ہار نہیں کچھ بھی نہیں
اب کوئی جیت نہیں ہار نہیں کچھ بھی نہیں
میں جہاں ہوں وہاں سنسار نہیں کچھ بھی نہیں
ایک عالم کی خبر مجھ کو ہوئی جاتی ہے
میں خبردار نہ ہشیار نہیں کچھ بھی نہیں
ایک جیسے ہیں مگر پھر بھی جدا ہیں سارے
درمیاں ہے کوئی دیوار نہیں کچھ بھی نہیں
میرے بچو مری یہ بات سدا یاد رہے
آدمی کا کوئی کردار نہیں کچھ بھی نہیں
وہ جو نفرت کے سہارے ہی بنے ہیں سب کچھ
ان سے کہہ دو کہ اگر پیار نہیں کچھ بھی نہیں
پہلے ہر دل پہ حکومت تھی منورؔ اپنی
اب تو دلی میں بھی سرکار نہیں کچھ بھی نہیں