کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں
کس کے کھوئے ہوئے اوسان چلے آتے ہیں
وہ جو یوں بے سر و سامان چلے آتے ہیں
غیر کے ملنے کی تاکید ہے ہر خط میں مجھے
کس قیامت کے یہ فرمان چلے آتے ہیں
تم جو نازک ہو تو کیا آ نہیں سکتے دل میں
آنکھ کی راہ بھی انسان چلے آتے ہیں
گھر سے باہر نکل آیا نہ ہو وہ پردہ نشیں
لوگ کیوں چاک گریبان چلے آتے ہیں
رشک دشمن کبھی دل میں ہے خیال غم دوست
آج مہمان پہ مہمان چلے آتے ہیں
آپ غربت میں نہ گھبرائیے اتنا صفدرؔ
دیکھیے غیب سے سامان چلے آتے ہیں