خواہشوں کی کتاب تھے جب تھے
خواہشوں کی کتاب تھے جب تھے
زندگی کا نصاب تھے جب تھے
اپنی انگلی پکڑ کے چلتے تھے
خود کو ہم دستیاب تھے جب تھے
طاق ماضی کے یہ اداس دیے
شوق میں آفتاب تھے جب تھے
اپنی آنکھوں میں اب کھٹکتے ہیں
چشم یاراں کا خواب تھے جب تھے
اب میسر کہاں ہیں خود کو بھی
ہاں ترے بے حساب تھے جب تھے
یہ جو آنکھیں بجھی بجھی ہیں ناں
ان میں بھی چند خواب تھے جب تھے
اب جو سوکھے پڑے ہیں قبروں پر
یہ بھی تازہ گلاب تھے جب تھے