پنجۂ زیست میں پھنسا پنچھی
پنجۂ زیست میں پھنسا پنچھی
پھڑپھڑاتے ہوئے مرا پنچھی
پر نکلتے ہی اک اڑان بھری
اور پھر خواب ہو گیا پنچھی
ناتواں ہے ابھی وجود ترا
پھر مخالف بھی ہے ہوا پنچھی
پھر پلٹ کر کبھی نہیں آیا
قید سے ہو گیا رہا پنچھی
جا دعائیں ہیں تیرے ساتھ مری
اب محافظ ترا خدا پنچھی
جانے کب جسم کا قفس ٹوٹے
اور اڑ جائے روح کا پنچھی