خواب کار
میں نے خوابوں کے حسیں جال بنے
چاندنی شب کی بہاروں میں کبھی
صبح کے پھیلے چناروں میں کبھی
دن کے ہنگاموں کے ہر پہلو میں
شام کے بڑھتے ہوئے جادو میں
میں نے جب چاہا نئے پھول چنے
میں نے خوابوں کے حسیں جال بنے
اپنے ہر خواب میں پایا تم کو
ماند کرتے ہوئے تاروں کے دیے
گنگناتے ہوئے چشموں کو لئے
مسکراتے ہوئے پاس آتے ہوئے
دام آغوش میں رہ جاتے ہوئے
میں نے یوں اپنا بنایا تم کو
اپنے ہر خواب میں پایا تم کو
اک گراں لمحے کی رو میں اک دن
تم کو افسانہ سنایا اپنا
راز کوئی نہ چھپایا اپنا
اپنے خوابوں کی دکھائی دنیا
آرزوؤں سے سجائی دنیا
حسن گل رنگ کی ضو میں اک دن
اک گراں لمحے کی رو میں اک دن
تم نے کیا سمجھا نہ جانا برسوں
میں فسوں ساز بہانوں میں رہا
دھیان کے لاکھوں ٹھکانوں میں رہا
ہر کٹھن راہ کو آساں دیکھا
حسرتوں کو بھی غزل خواں دیکھا
یاد آیا وہ زمانہ برسوں
تم نے کیا سمجھا نہ جانا برسوں
اب نہ وہ خواب نہ وہ باتیں ہیں
تم بھی پہلے سے نہیں ہو شاید
اپنی فطرت سے قریں ہو شاید
وقت نے منزلیں کی ہیں کیا طے
مجھ سے بیگانہ ہوئی ہے ہر شے
ہر طرف پھیلی سیہ راتیں ہیں
اب نہ وہ خواب نہ وہ باتیں ہیں