خوشی جو سایۂ غم میں رہے پھر وہ خوشی کیوں ہو
خوشی جو سایۂ غم میں رہے پھر وہ خوشی کیوں ہو
گرہن جو چاند کو لگ جائے تو پھر چاندنی کیوں ہو
ادائے حسن دلکش کو ذرا سمجھے تو یہ دنیا
توجہ اس میں پنہاں ہے یہ ان کی بے رخی کیوں ہو
اسے کچھ اور ہی کہیے کہ دل دکھتا ہے یہ سن کر
جب اس میں موت شامل ہے تو پھر یہ زندگی کیوں ہو
اگر ملیے کسی سے آپ تو دل کھول کر ملیے
خلوص دل ہی جب نہ ہو تو پھر مل کر خوشی کیوں ہو
خوشی کے وقت میں کیوں خاص صدمے یاد آتے ہیں
کہ ہونٹوں پہ ہنسی کے ساتھ آنکھوں میں نمی کیوں ہو
اگر لالچ سے جنت کے جہنم کی یہ دہشت سے
کیے جو عمر بھر سجدے بھی تو یہ بندگی کیوں ہو
جہاں میں اور بھی اک اجنبی بڑھ جائے تو کیا ہے
نہ ہو پائے کسی سے دوستی تو دشمنی کیوں ہو
تمنا خاص دل کی ان سے اس ڈر سے نہیں کہتے
کہ آغاز محبت ہی میں ان سے دشمنی کیوں ہو
ہمیں پینے کی حسرت ہی نہیں باقی ہے اب ساحلؔ
بجھا دی آنسوؤں نے پیاس تو پھر تشنگی کیوں ہو