خوشی دامن کشاں ہے دل اسیر غم ہے برسوں سے
خوشی دامن کشاں ہے دل اسیر غم ہے برسوں سے
ہماری زندگی کا ایک ہی عالم ہے برسوں سے
ستم ہے آنسوؤں کا پونچھنے والا نہیں کوئی
ہماری آنکھ بھی تر آستیں بھی نم ہے برسوں سے
وضاحت چاہتا ہوں تجھ سے تیرے اس اشارے کی
جو پیہم میری جانب ہے مگر مبہم ہے برسوں سے
رہے ہم ساتھ بھی برسوں ترے کہلائے بھی لیکن
تجھے اپنا نہ پائے یہ خلش یہ غم ہے برسوں سے
کسی سے مدعائے دل کہا ہو تو زباں کٹ جائے
بس اک تو ہے جو دل کے راز کا محرم ہے برسوں سے
ہماری زندگی کہنے کی حد تک زندگی ہے بس
یہ شیرازہ بھی دیکھا جائے تو برہم ہے برسوں سے
خوشی ہے اے وقارؔ اب اور نہ ارمان خوشی باقی
اگر کچھ ہے تو بس آسودگئ غم ہے برسوں سے