خوشبوئے پیرہن سے سلگتے رہے دماغ
خوشبوئے پیرہن سے سلگتے رہے دماغ
آئی شب فراق تو گل ہو گئے چراغ
دل کی لگی بھڑک کے نگاہوں تک آ گئی
پلکوں پہ شام وصل جلائے ہیں دل کے داغ
اس چشم مے فروش سے ہنگام ناؤ نوش
پھوٹا وہ سیل نور کہ لو دے اٹھے ایاغ
وہ گل کھلیں کہ جن کی مہک لا زوال ہو
اس ایک دن میں ہم نے سجائے ہیں کتنے باغ
آخر کھلا کہ تو ہے مرے گھر کی روشنی
یوں تو ترے بغیر بھی جلتے رہے چراغ
جب چشم و دل بجھے تو شبستان شوق میں
ہم نے ہتھیلیوں پہ جلائے ہیں شب چراغ
جو وادیٔ جمال میں گم ہو گئے جمیلؔ
اپنی طلب کے ساتھ ہی ان کا بھی کچھ سراغ