خوش بہت تھا ایک لمحہ شادمانی دیکھ کر
خوش بہت تھا ایک لمحہ شادمانی دیکھ کر
غم ہوا مجھ کو یوں غم کی ترجمانی دیکھ کر
جو گزرتی جا رہی ہے نام اس کا عمر ہے
زندگی حیران ہے اس کی روانی دیکھ کر
ہائے اس صیاد نے دیوار رنگوا دی عجیب
اڑ رہے ہیں سارے پنچھی آسمانی دیکھ کر
جگنوؤں نے آج دعوت پر بلایا چاند کو
چاند شب بھر ٹمٹمایا میزبانی دیکھ کر
آنکھیں میری تھیں لبالب گرد کا پہرہ تھا یاں
وہ یہ سمجھا دھوکا ہے صحرا میں پانی دیکھ کر
کیا مزہ گر عشق میں تھوڑی بہت دوری نہ ہو
اس نے خود سے یہ کہا میری نشانی دیکھ کر
ایک تو دل شاعرانہ اور پھر مجروح بھی
چین مجھ کو آئے گا بس باغبانی دیکھ کر
مٹھیوں میں خاک لے کر آ گئے ہیں سب کے سب
کر دو مجھ کو دفن میری بے مکانی دیکھ کر
وہ محبت کے معانی بس بتاتا ہی رہا
عشق پھر جاتا رہا دشت معانی دیکھ کر
راز تھوڑے آؤ کھولیں اس خدا کے منتظر
اس زمیں پر آسماں کی حکمرانی دیکھ کر