خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی

خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی


زندگی اک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کٹ گئی
جستجو میری بھی دشمن تھی عدو اس کی بھی تھی


میری باتوں میں بھی تلخی تھی سم تنہائی کی
زہر تنہائی میں ڈوبی گفتگو اس کی بھی تھی


وہ گیا تو کروٹیں لے لے کے پہلو تھک گئے
کس طرح سوتا مرے سانسوں میں بو اس کی بھی تھی


رات بھر آنکھوں میں اس کا مرمریں پیکر رہا
چاندنی کے جھلملانے میں نمو اس کی بھی تھی


گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی


میں ہوا خائف تو اس کے بھی اڑے ہوش و حواس
میری جو صورت ہوئی وہ ہو بہ ہو اس کی بھی تھی


کچھ مجھے بھی سیدھے سادھے راستوں سے بیر ہے
کچھ بھٹک جانے کے باعث جستجو اس کی بھی تھی


وہ جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب
میں نے اس کو ہم سفر جانا کہ تو اس کی بھی تھی


دشت فرقت کا سفر بھی آخرش طے ہو گیا
اور کچھ دن ساتھ دیتا آرزو اس کی بھی تھی


بات بڑھنے کو تو بڑھ جاتی بہت لیکن نظرؔ
میں بھی کچھ کم گو تھا چپ رہنے کی خو اس کی بھی تھی